rki.news
تئیس اپریل کو کتاب کے عالمی دن کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ، ہمیں تو آج کے دن دنیا کی سب سے عظیم اور مخلص کتاب قرآنِ پاک کا ہی خیال آتا ہے ، اس سے بڑھ کر سچی اور انسان کی رشد و ہدایت کے لئے اور کوئ کتاب نہیں ، اس بات سے مسلمان تو کیا کوئی اور مذہب کا پیروکار بھی انکار نہیں کر سکتا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلی وحی کا آغاز بھی “پڑھنے” کے حکم سے ہوا تھا، جو علم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، جیسا کہ سورۃ العلق میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔” (العلق: 1)
یہ آیت اس بات کی گواہ ہے کہ کتاب نا صرف انسان کی دنیاوی تربیت کرتی ہے بلکہ روحانی طور پر اسے اپنے رب سے جوڑتی ہے ۔ قرآن پاک ہمیں ہر معاملے میں رہنمائی دیتی ہے اور اس میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے ، دنیا کا سب سے پہلا مصنف خود اللہ کی ذات ہے اور اسی نے کتاب کو انسان کی رہنمائی کے لئے منتخب کیا ۔
اس دن کو منانے کا مقصد نہ صرف کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے بلکہ لوگوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا اور لکھاریوں، ادیبوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے ، یونیسکو (UNESCO) نے 1995ء میں 23 اپریل کو باضابطہ طور پر “عالمی یومِ کتاب و حقوقِ مصنف” قرار دیا۔ اس تاریخ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کیونکہ یہ دن معروف مغربی مصنفین شیکسپیئر اور میگوئل دی سروینتس کی وفات کا دن بھی ہے، جو عالمی ادب کی تاریخ میں ایک سنگِ میل سمجھے اور مانے جاتے ہیں۔
آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں ، جس میں حصول علم کے ذرائع بدل چکے ہیں ، سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور موبائل کی سکرین نے نسل نو کو کتاب سے دور کر دیا ہے ، یہ ذرائع نامعتبر اور سطحی ہیں ، جنھوں نے بچوں کی رہنمائی تو کیا کرنی ، الٹا انھیں غلط سرگرمیوں کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی و جسمانی صحت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے ، موبائل کی شعاعوں اور رات رات بھر جاگنے کی وجہ سے آنکھوں اور دماغ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔مطالعہ انسان کی شخصیت کو سنوارتا ہے اور سوچ میں فکری گہرائی پیدا کرتا ہے ، جو کہ اقوام کی ترقی کے لئے معاون ثابت ہوتا ہے ۔
موجودہ دور میں نوجوانوں کے ہاتھوں میں موبائل آ جانے سے وہ کتاب سے دور ہو کر ایک خیالی دنیا کا باسی بن چکے ہیں ، جہاں ایک انگلی کے دباؤ سے وہ کسی بھی قسم کے مواد تک باآسانی پہنچ جاتا ہے ، برائی میں بہت کشش ہوتی ہے ، ہمیں اپنے نوجوانوں کی رہنمائ اور تربیت کرنی ہے ، تاکہ وہ تباہی کے گڑھے سے محفوظ رہ سکیں ۔ یہاں پر والدین اور اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے ، نوجوانوں کو کتاب کی اہمیت کا احساس دلانا ہو گا اور انھیں مطالعہ کی طرف راغب کرنا ہو گا ، اس کے لئے مل جل کر ایسی سرگرمیاں تشکیل دینی ہوں گی ، جس سے کتاب کی طرف مائل کیا جا سکے ، طلبہ کے لئے نا صرف کتب میلے کا وقتاً فوقتاً انعقاد کرنا ہوگا , بلکہ کتب خانوں کی تعداد بھی بڑھانی ہو گی ۔اگر طالب علم اپنے والدین اور اساتذہ کرام کو موبائل میں مصروف دیکھیں گے تو وہ بھی اسے استعمال کرنا چاہیں گے ، تو انھیں مطالعہ کی طرف مائل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ارد گرد کتاب دوستی کا ماحول ہو ،
کتاب ناصرف ہمیں ماضی کے قصے بتاتی ہے ، بلکہ ہمارے حال اور مستقبل کو بھی سنوارتی ہے ۔
یہاں اپنے کچھ مفکرین کا ذکر کرنا ناگزیر سمجھتی ہوں کیونکہ انھوں نے ہمیشہ کتاب کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اسے علم، ہدایت اور ترقی کا ذریعہ سمجھا ہے ، جن میں سب سے پہلے تو
حضرت علی رض نے فرمایا کہ “علم دولت سے بہتر ہے، کیونکہ علم آپ کی حفاظت کرتا ہے، جبکہ دولت آپ کو اپنے پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔”
اسی طرح ابن سینا نے بھی کتاب کے بارے میں کہا کہ
“کتاب ایک دریا کی طرح ہے جس میں انسان غوطہ لگا کر جتنا چاہے علم حاصل کر سکتا ہے۔” امام غزالی رح نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ
“علم انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اور کتاب اس علم کا سب سے معتبر ماخذ ہے۔” جناب سید مودودی کے بقول “کتاب وہ ذریعہ ہے جو انسان کو حقیقت تک پہنچاتا ہے اور اس کا فہم انسان کی روحانی اور ذہنی ترقی کے لئے ضروری ہے۔”
ابن رشد کہتے ہیں کہ
“کتاب سے استفادہ انسان کو نہ صرف دنیاوی فائدے پہنچاتا ہے بلکہ اس کے روحانی اور اخلاقی پہلو کو بھی جلا بخشتا ہے۔”
یہ تو صرف چند اقوال ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب نہ صرف علم کا ذریعہ ہے بلکہ یہ انسان کی شخصیت بھی سنوارتی ہے۔
کتاب انسان کی بہترین دوست ہے ، جو اس کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی ، ہمیشہ ساتھ دیتی ہیں ، رہنمائی کرتی ہیں اور کامیابی و ترقی کا زینہ ہوتی ہیں ۔
اللہ کرے کہ ہماری نسلیں اس بات کو سمجھ لیں ، آمین ثم آمین
Leave a Reply