Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کتاب: جناب عالی

Articles , Snippets , / Wednesday, April 9th, 2025

rki.news

شاعر: صغیر احمد صغیر
تبصرہ: منزہ سحر

ایک ڈرے، سہمے، مفاد پرست اور تعفن زدہ معاشرے میں طاغوتی قوتوں کو للکارتی ہوئی آواز ۔۔۔ جناب عالی! جناب عالی!
یہ کاٹ دار لہجہ ان منفی کرداروں سے مخاطب ہے جو نا صرف معاشرتی اقدار پہ حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ دلوں پر بھی بے دریغ وار کرتے ہیں اور اندھا دھند اپنے مفاد کے گھوڑے سرپٹ دوڑاتے ہوئے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں ایسے میں کوئی ایک ایسا دلیر، غیور اور نڈر کردار ان کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اور ان کی سوالیہ نظروں کے جواب میں یہ ڈائیلاگ بولتا دکھائی دیتا ہے جنابِ عالی! جنابِ عالی!
صورتحال کچھ فلمی سی تو لگتی ہے مگر کیا کیجیئے جب ہمارے لیے حالات ہی ایسے بنا دئیے جائیں تو ان کا جواب بھی اسی طریقے سے واجب ہو جاتا ہے ۔ اور پھر تاریخ بھی ایسے کردار کو فراموش نہیں کر سکتی بلکہ وہ دوسروں کے لیے ایک مثال بن کر ابھرتا ہے اور اپنے حصے کا کام کر جاتا ہے ۔
جناب صغیر احمد صغیر کا زیر نظر شعری مجموعہ “جناب عالی!” عین اس صورتحال کا آئینہ ہے ۔ انہوں نے بنا کسی خوف و خطر مزاحمتی شاعری کو آگے بڑھاتے ہوئے انقلابی شاعروں کی پیروی بھی کی ہے اور اپنا منفرد اسلوب اور واضح نکتہ نظر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے ۔ شعری مجموعہ “جنابِ عالی! ” شاعر کے نڈر طرزِ فکر کو اجاگر کرتا ہے ۔ وہ معاشرے کے کرتا دھرتاؤں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

میں زمانے سے جدا ہوں سو جدا بولنا ہے
اس پہ معلوم ہے لوگوں نے برا بولنا ہے
قاضی وقت کی اوقات یہی ہے کہ اسے
حکم لکھا ہوا ملتا ہے کہ کیا بولنا ہے۔

حرف غلط ہے جو بھی مٹا دینا چاہیے
یہ ظلم کا نظام گرا دینا چاہیے
جس شہر پر یزید کی فرماں روائی ہو
اس شہر کو صغیر جلا دینا چاہیے ۔

صغیر احمد صغیر بیک وقت پنجابی ، اردو اور انگریزی کے بہترین شاعر ہیں وہ نا صرف سنجیدہ شاعری میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں بلکہ ان کی مزاح سے بھرپور شاعری بھی سوشل میڈیا پر بے حد مقبول ہے یہ کثیر اللسانی اور کثیر الجہتی ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ وہ جہاں بھی کلام سناتے ہیں بے پناہ داد وصول کرتے ہیں۔ حیاتیات کے پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ بھی ان کا مضمون رہا ہے اس لیے آپ کو ان کے اشعار میں تاریخی حوالے بھی ملیں گے۔

اک ایک شاہ پہ گزری ہر ایک شاہ کے بعد
پناہ ڈھونڈو گے تم دیکھنا پناہ کے بعد

ہر ایک جبر کے انجام کی خبر ہے ہمیں
کہ صبح ہوتی ہے آخر شب سیاہ کے بعد

اس خوفزدہ اور گھٹن کی فضا میں کوئی جاندار للکار مایوس اور تھکے ہوئے اذہان کے لیے تقویت اور طمانیت کا باعث ہے اور اس نفسا نفسی کے عالم میں زاد راہ کی طرح منزل پر پہنچنے کے کام آتی ہے ۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے ۔

تمام شہر کو جو سچ ہوا بتاؤں گا
پھر اس کی جتنی بھی قیمت ہوئی چکاؤں گا

میں ہجر والوں کا اک قافلہ بناؤں گا
تمہارے بعد بھی جی کر تمہیں دکھاؤں گا

جنہوں نے مل کر مرے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے
انہیں یہ ڈر تھا کہ میں آئینہ بناؤں گا ۔

کون اپنے تھے جو دشمن کے حواری نکلے
بات نکلی ہے تو پھر ساری کی ساری نکلے
ہم تو سمجھے تھے کہ تقدیسِ قلم جانتے ہیں
ہائے جو لوگ کرائے کے لکھاری نکلے

جو تری میز پہ رکھا ہے یہ دائیں جانب
منصفا اس ترے میزان سے خوف آتا ہے
وہ جہاں چاہے وہاں آگ لگا دیتا ہے
شہر کے شہر کو سلطان سے خوف آتا ہے ۔

محبت کسی بھی شاعر کی شاعری کا پہلا اور آخری مسئلہ ہے وہ بیشک جتنے بھی مضامین اپنی شاعری میں شامل کرے محبت سے جان نہیں چھڑا سکتا ۔ دل ٹوٹنے پر دل برداشتہ ہونا اور بے حد اداس ہو جانا ایک فطری عمل ہے لیکن اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو سنبھالنا بھی کسی کسی کا کام ہے یہاں بھی محترم شاعر اپنے محبوب کو اپنی شخصیت کا مظبوط رخ دکھاتے نظر آتے ہیں ۔ یہ اشعار دیکھئیے

نہ کوئی واہمہ اب ہے نہ ڈر اداسی کا
لگی ہے عمر تو آیا ہنر اداسی کا
تمہاری چہرہ شناسی کو مان جاؤں گا
بتاؤ مجھ پہ ہے کتنا اثر اداسی کا

آدمی عشق میں جب حد سے گزر جاتا ہے
عشق جاتا ہے یا پھر ہاتھ سے گھر جاتا ہے
اس نے سمجھا ہی نہیں ہے مری خاموشی کو
اتنا خاموش رہے کوئی تو مر جاتا ہے

اک وہی ہے جو مرے دل کی زباں جانتا ہے
ورنہ دنیا میں مجھے کوئی کہاں جانتا ہے
قہقہے اتنے لگاتا ہوں کہ رو پڑتا ہوں
میرے ہنسنے کا سبب کون یہاں جانتا ہے

اور اب اس مشہور زمانہ غزل کے چند اشعار جس کی ردیف اس کتاب کے سرورق پہ چمک دمک رہی ہے ۔

کبھی تو دیکھو گے ان کی لالی جنابِ عالی!
ہماری آنکھیں جو ہیں سوالی جنابِ عالی!
عجب قرینہ، عجب مہارت ہے گفتگو میں
جو اتنا اچھے سے بات ٹالی جنابِ عالی!
جناب دنیا سے ڈر گئے نا ؟بدل گئے نا؟
ہمارے پیچھے بھی تھی یہ سالی جنابِ عالی!

جناب صغیر احمد صغیر کے شعری سفر میں اب تک چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں سے ایک پنجابی شعری مجموعہ اور تین اردو شاعری کے مجموعے شامل ہیں دو مزید اردو شعری مجموعے زیر اشاعت ہیں اور خبر ہے کہ جلد ہی منظر عام پر ہوں گے یوں کل ملا کر وہ چھ عدد شعری مجموعوں کے خالق ہیں جو کہ ان کی محنت و ریاضت کا نچوڑ ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے لیے دعائیں اور نیک تمنائیں ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International