rki.news
از قلم : زاہد اقبال بھیل
انسان کی زندگی میں علم اور فہم کی بنیادیں کتاب کی صورت میں پڑتی ہیں۔ کتاب نہ صرف معلومات اور دانش کا خزانہ ہے بلکہ یہ دل و دماغ کی رہنمائی، روحانی سکون اور فکری وسعت کا ذریعہ بھی ہے۔ جہاں دوست کبھی دھوکہ دے سکتے ہیں، وہاں کتاب ہمیشہ سچا اور وفادار رہتا ہے، ہر لمحے انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اس کی زندگی کے ہر پہلو کو روشنی اور وضاحت عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفکرین اور دانشور کتاب کو انسان کی سب سے قیمتی دوست قرار دیتے ہیں۔
کتاب انسان کی زندگی میں سب سے وفادار اور قیمتی دوست کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف علم کا خزانہ ہے بلکہ انسان کی فکری نشوونما، اخلاقی تربیت اور روحانی سکون کا ذریعہ بھی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں علم اور بصیرت کے حصول کے لیے کتاب کا کردار لازمی ہے، اور یہ رشتہ ہمیشہ سچا اور مستحکم رہتا ہے۔
کتاب دوستی محض علم کے حصول کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسانی روح کی خوراک، دل کی تسکین اور ذہن کی رہنمائی کا سب سے معتبر سرچشمہ ہے۔ جیسا کہ عربی کہاوت ہے، ’’کتاب جیب میں رکھا ہوا ایک گلستان ہے‘‘، یہ نہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہے بلکہ خیالات، احساسات اور تجربات کا ایک روشن باغ ہے جس میں ہر قاری اپنی سیر کر سکتا ہے۔ چینی کہاوت کے مطابق، جب کوئی آدمی دس کتابیں پڑھتا ہے تو وہ دس ہزار میل کا سفر طے کر لیتا ہے، یعنی کتاب انسان کو محدود جسم سے باہر نکال کر وسیع افق اور ہزاروں زندگیوں کا مسافر بنا دیتی ہے۔
ابنُ الجوزی کی رائے کے مطابق، ’’گھر میں ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں انسان اپنی کتابوں کی سطور سے گفتگو کر سکے اور اپنے تخیلات کی پگڈنڈیوں پر بھاگ سکے‘‘۔ واقعی، کتاب کا کمرہ ایسا مقدس گوشہ ہے جہاں ہر لفظ، ہر جملہ، اور ہر صفحہ قاری کے دل و دماغ میں چراغاں کرتا ہے۔ گورچ فوک کہتے ہیں کہ ’’اچھی کتابیں ہماری بھوک کو بڑھاتی ہیں، زندگی کو جاننے کی بھوک کو پروان چڑھاتی ہیں‘‘۔ یہ درست ہے؛ کتابیں صرف معلومات نہیں دیتیں، بلکہ انسان کو سوچنے، محسوس کرنے اور تجربات کی گہرائی تک جانے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
کتابیں خاموش استاد ہیں، اؤلس گیلیوس کے الفاظ میں، جو نہ صرف علم دیتی ہیں بلکہ اخلاق اور بصیرت کی بھی رہنمائی کرتی ہیں۔ قدیم رومی فلسفی سائیسیرو فرماتے ہیں کہ ’’ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے‘‘۔ واقعی، کتاب انسان کی روح کی غذا ہے، جو ذہن کی بھوک، دل کی پیاس اور خیالات کی جستجو کو پورا کرتی ہے۔
جارج برنارڈ شا کی زبان میں، ’’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیار ہیں‘‘، کیونکہ ایک اچھی کتاب نہ صرف عقل کو تیز کرتی ہے بلکہ سماجی اور اخلاقی شعور کو بھی جگاتی ہے۔ کرسٹوفر مورلے لکھتے ہیں کہ ’’جب بھی ایک کتاب لیتے ہو، تو صرف کاغذ کا پلندہ نہیں بلکہ ایک نئی زندگی لے رہے ہوتے ہو‘‘۔ اسی طرح ورجنیا وولف کا کہنا ہے کہ ’’ایک ہزار کتابیں پڑھیے، پھر آپ کے الفاظ میں دریاؤں کی سی روانی آ جائے گی‘‘۔
کتابیں ہمیں متعدد زندگیوں کا تجربہ دیتی ہیں۔ جارج آر آر مارٹن کے مطابق، ’’ایک قاری اپنے مرنے سے پہلے ہزاروں زندگیاں جی لیتا ہے؛ جب کہ جو شخص کبھی نہیں پڑھتا، صرف ایک زندگی جی پاتا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیں انسان کو تنہا اور محدود وجود سے آزاد کر کے وسیع اور بے کنار دنیا میں لے جاتی ہیں۔
ارسطو کے الفاظ میں ’’کتابیں ذہن کی غذا ہیں‘‘، اور ولیم شیکسپیئر فرماتے ہیں کہ ’’کتابیں دنیا کی بہترین دوست ہیں‘‘۔ رالف والڈو ایمرسن کہتے ہیں کہ ’’کتابیں روح کی آزادی کی کلید ہیں‘‘۔ مارک ٹوین نے اس حقیقت کو مزید وضاحت سے بیان کیا کہ ’’ایک آدمی کی سب سے بڑی دولت اس کی کتابوں میں ہوتی ہے‘‘۔
کتابیں صرف دوست ہی نہیں، بلکہ کبھی خیانت نہیں کرنے والے رفیق بھی ہیں۔ جورج برنارڈ شا کے مطابق، ’’کتابیں وہ دوست ہیں جو کبھی خیانت نہیں کرتے‘‘۔ اور مستنصر حسین تارڑ کی زبان میں، ’’خریدی ہوئی کتاب آپ کی جائیداد میں شامل ہو جاتی ہے‘‘۔ واقعی، کتاب انسان کی سب سے قیمتی دولت ہے، جو علم، بصیرت، روحانیت اور تخیل کا ذخیرہ ہے۔
کتاب کے ساتھ دوستی انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی رشتہ ہے۔ یہ انسان کو علم، فہم، اخلاق اور سکون فراہم کرتی ہے۔ مفکرین کے اقوال اس بات کا ثبوت ہیں کہ کتاب انسان کی سب سے وفادار دوست ہے، جو نہ کبھی دھوکہ دیتی ہے نہ چھوڑتی ہے، اور ہر لمحے انسان کی رہنمائی اور سکون کا ذریعہ بنتی ہے۔
’’کتاب دوستی‘‘ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی صرف جی لینے کا نام نہیں، بلکہ سوچنے، محسوس کرنے اور علم و حکمت کی روشنی میں اپنے وجود کو سنوارنے کا نام ہے۔ کتاب ایک طویل ترین خط ہے، ایک دوست کے نام لکھا گیا، جو وقت اور فاصلوں کے بندھن سے آزاد ہے۔ یہ انسان کو ہزاروں زندگیوں کا مسافر بناتی ہے، روح کو سکون بخشتی ہے اور دل کو روشنی دیتی ہے۔
یوں کتاب دوستی محض مطالعے کا ہنر نہیں، بلکہ انسان کی روح کی پرواز، دل کی روشنی اور شعور کا سفر ہے۔ ایک کتاب، ایک دوست، اور ایک گلستان یہ تینوں ایک ساتھ مل کر زندگی کو قابلِ سکون، قابلِ فکر اور قابلِ محبت بنا دیتے ہیں۔
Leave a Reply