تبصرہ و فنی جائزہ۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!گلشن ادب کے مہکتے کنول ممتاز صحافی وشاعر میواتی زبان و ادب اور تاریخ کے عظیم سکالر شیر چوہدری اخگر میواتی کی خدمات پر انتہائی خوب صورت کتاب ادب و سخن کے قیمتی ہیروں ”محترم نواب ناظم ترجمان متاع ادب و سخن اور احمد فہیم میو “ کی زبردست کاوش ہے۔اس پر نگارشات پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسے آسمان سے ستارے توڑ لانے کے مترادف۔محترم نواب ناظم میو آفتاب سخن کی محبت کی چنگاری دامن دل میں آتش محبت بھڑکاتی ہے تو قلم و قرطاس لے کر لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔موصوف کی محبت ہے کہ کتاب ”صاحب اقلیم ادب“پر نگارشات پیش کرنے کا اعزاز بخشا۔یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ان دو متذکرہ ہستیوں کی عظیم کاوشوں سے ایک کتاب نۓ روپ کے ساتھ قارئین کے لیے نایاب تحفہ بن کر سامنے آئی۔دونوں ہستیوں کے نام نشاط کے پھول پیش کرنا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کیونکہ خون جگر سے چراغ روشن کرنے کے مترادف کتاب ایک عزم اور حوصلہ سے لکھ کر ادبی دنیا میں گراں قدر اضافہ کر دیا۔
اشاعت۔ 14 اگست 2024
ناشر۔سسٹم پبلی کیشن لاہور
انتساب۔کمال الدین کمال سالار پوری اور ریاض رومانی کے نام
فہرست کتاب اس قدر دلکش اور خوب صورت ہے جس سے مؤلفین کی محنت کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
1۔صاحب اقلیم ادب تالیف کرنے کی احتیاج
2۔شیر چوہدری المعروف اخگر میو
3۔رسم الخط کی اہمیت و افادیت
4۔ذوقی مظفر نگری کا فن
5۔شیر محمد چوہدری کی میواتی ,ادبی,صحافتی ناقابل فراموش خدمات
6۔شیر چوہدری المعروف اخگر میو بطور ناول نگار
7۔چوہدری شیر محمد متخلص اخگر میو کی اداراتی و مضمون نویسی پر مختصر تنقیدی جائزہ
8۔رسم دنیا بھی ہے موقع بھی دستور بھی ہے
9۔اپنی باتیں۔میوات رسالہ کا مستقبل شیر محمد چوہدری اپریل 1996
10۔شیر محمد چوہدری اخگر میو
11۔شیر چوہدری کی شاعری ۔۔انتخاب فہیم احمد میو
مؤلفین محترم نواب ناظم صحافی ،شاعر،مدیر اور کالم نگار اور فہیم احمد میو بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے مختلف عنوانات کے تحت ایک ایسے نامور شاعر اور صحافی کی خدمات یکجا کرتے ایک کتاب ترتیب دے دی جو ادب میں انمول ہیرہ ثابت ہوتی ہے۔اس میں ایک چمک پائی جاتی ہے جو دلوں کو مسخر کرتی ہے۔
یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ شیر چوہدری اخگر میو مضمون نگار کی نظر میں ایک ایسی ہستی کے مالک تھے جنہوں نے میو برادری میں جنم لیا اور پھر اپنے پدر محترم اور برادران کی نہج پر چلتے ہوۓ حتی المقدور تعلیمی روشنی سے قلب و جگر منور کیے اور ثابت کیا کہ وہ ایک معلم کے بیٹے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کے حالات کی روشنی میں ان کا ہر قدم ان کی تعلیمی روشنی کی شہادت دکھائی دیتا ہے۔مضمون نگار نے موصوف کی زندگی کے مختلف گوشوں کا تذکرہ بہت ہی خوبصورتی سے کیا ہے۔موصوف کا نام شیر محمد چوہدری اور تخلص اخگر کے باوجود ان کی شیرانہ اور شاعرانہ جدوجہد کی روشنی میں انہیں شیر ادب کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔مضمون نگار نے محبت بھرے جذبہ سے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ صحافت اور شعروسخن میں نام پیدا کرنے والی ہستی ماہنامہ میوات لاہور سے قارئین کے لیے نکالتے تھے۔اس کے دور رس اثرات مرتب ہوۓ تھے۔گویا میواتی برادری میں ایک تحریک پیدا ہوئی۔اس بات کی وضاحت بھی مضمون نگار نے پیش کی کہ ماہنامہ میوات لاہور نے ایک اچھی سوچ اور فکروشعور کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس بات کو ہمیشہ یاد بھی رکھا جاۓ گا کہ موصوف شیر چوہدری اخگر میو نے تمام تر مشکلات برداشت کرتے اس مقصد عظیم کو جاری رکھا۔موصوف کی ادبی خدمات کے حوالے سے دیکھا جاۓ تو ایک درخشاں انداز سے آج بھی روشن ستارے کی مانند ہیں۔موصوف علاقہ میوات کے معروف شہر گوڑ گاواں کے خوب صورت گاؤں گنگوانی میں ایک معلم چوہدری سہراب خان کے ہاں پیدا ہوۓ۔چوہدری سہراب چونکہ درس و تدریس سے وابستہ تھے۔شیر چوہدری اخگر میو کی خوش قسمتی کہ عملی گھرانہ میں پیدا ہوۓ۔قیام پاکستان کے بعد خونی دریا عبور کرتے موصوف پاک سرزمین میں داخل ہوۓ۔اور قصور شہر میں رہائش پذیر ہوۓ۔80 کی دہائی میں موصوف نے ایک ناول ”باہڑ میو“کے نام سے شائع کیا۔جس کے شروع میں معذرت کے عنوان سے دیباچہ بھی لکھا۔1968 میں میو آڈٹ پروڈکشن کے نام سے ادارہ کی بنیاد رکھی تھی۔1974 میں مادر میوات کے نام سے قیس چوہدری کا کلام چھپوا کر قوم کو نذرانہ پیش کیا۔رسم الخط کی اہمیت و افادیت میں بھی ایک منفرد روایت برقرار رکھی جسے مضمون نگار نے احسن انداز سے سراہنے کی کوشش کی ہے۔محترم ذوقی مظفر نگری کے فن سے خصوصی لگاؤ کا تذکرہ تو کتاب ”صاحب اقلیم ادب“ کی رونق کو اور بھی دوبالا کرتا ہے۔
استاد محترم نبیرۂذوق علامہ ذوقی مظفر نگری مرحوم سے سکندر سہراب میو,شیر چوہدری امعروف اخگر میو اور قیس چوہدری میو تینوں بھائیوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ علامہ صاحب کے ساتھ 1976 میں شام بہاراں کی مکمل کہانی اور سکندر سہراب میو اور شیر چوہدری اخگر میو کے وہ مستند اور جامع مضامین ہیں۔محترم نواب ناظم صاحب نے ایک جذبہ اور محبت سے کتاب کا حصہ بنا دیے چونکہ علامہ ذوقی مظفر نگری صاحب ان کے استاد محترم تھے اس لیے مضمون نگار کی حیثیت سے موصوف چاہتے ہیں کہ ادبی زندگی پر لکھے گۓ مقالہ جات تاریخ کا حصہ بن جائیں۔
اس کے تناظر میں جائزہ لیا جاۓ تو موصوف نواب ناظم صاحب کی اپنے استاد محترم سے کس قدر محبت کہ ”علامہ ذوقی مظفر نگری فن کے آئینہ میں اور شیر چوہدری المعروف اخگر میو اور دوسرے برادارن کی قلمی کاوشوں پر مشتمل قلمی خدمات پر تحریر لکھ کر کتاب کا حصہ بنا دیا۔
شیر محمد چوہدری کی میواتی،ادبی,صحافتی,ناقابل فراموش خدمات کا تذکرہ ہو کہ شیر محمد چوہدری المعروف اخگر میو بطور ناول نگار ,میوات رسالہ کا تذکرہ ہو کہ رسم دنیا بھی اور موقع بھی دستور بھی ہے کی باتیں جہاں مؤلفین کی محبت کی عکاس ہیں وہیں موصوف شیر چوہدری المعروف اخگر میو کی شخصیت کی عکاسی کی گئی ہے۔یہ بات حوصلہ افزا بھی ہے کہ محترم نواب ناظم صاحب جو ماشاءاللہ تجربہ کار صحافی اور شاعر بھی ہیں کتاب ”صاحب اقلیم ادب“کی زینت دوبالا کرنے اور قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھا خوش آئند بات ہے ان کے ساتھ احمد فہیم میو صاحب کی ہمت اور حوصلہ پر داد دینے کی ضرورت بھی ہے جن کی اچھی سوچ اور فکر سے ”شیر محمد چوہدری المعروف اخگر میو“کی قلمی خدمات میں نکھار پیدا ہوا۔
Leave a Reply