Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کتاب میلہ لاہور

Articles , Snippets , / Monday, February 10th, 2025

مرادعلی شاہدؔ دوحہ قطر

سوشل میڈیا یا سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس پر آجکل ایک ہی پوسٹ سے آپ کا سامنا ہورہا ہے اور وہ ہے لاہور میں منعقدہ کتاب میلہ۔جسے پاکستان کے بڑے کتب میلہ میں شمار کیا جاتا ہے۔قطر میں رہتے ہوئے میں یہ اندازہ تو نہیں لگا سکتا کہ کتنے فی صد لوگوں نے محض سیروتفریح کی غرض سے اور کتنے لوگوں نے کتب کی خریداری میں دلچسپی لی۔لیکن سوشل میڈیا کی کسی بھی ایپ کو جب کھولا تو کتاب دوست،قاری اورخریدار حضرات نے اپنے اپنے پسندیدہ دانشور،مصنف،افسانہ نگار،ناول نگار اورپسندیدہ کتب سٹالز کے ساتھ ایک سیلفی ضرور شیئر کی ہے۔میری نظر میں سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ کوئی کتاب خریدے نا خریدے کتابوں کی خوشبو کو سونگھنا بھی اپنے ادبی ذوق کو معطر کرنے سے کم نہیں۔یقین جانئے مجھے اگر کبھی اتفاق ہو کسی لائبریری،کتب سٹال یا کتب میلہ جانے کا تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گنجینہ مخفی دستیاب ہو گیا ہو۔آنکھوں کو طراوت،دل کو سکینت،حسِ شامہ سے آکسیجن جسم مین داخل ہوتے ہوئے روح تک کو سیراب کر دیتی ہو۔
آسٹن فلپس نے کہا تھا کہ”پرانا کوٹ پہنیں لیکن کتاب نئی خریدیں“
میرا بھی اس بات پر یقین کامل ہے کہ ذہن کو ہمہ وقت کتاب اور علم کی ضرورت رہتی ہے۔اور کتاب اگر آپ کی سماج میں رہتے ہوئے دوسروں سے تعصب اور نفرت کو کم نہیں کرتی تو یقین کریں آپ غلط کتابیں پڑھ رہے ہیں یا پھر لفظ آپ پر اثر نہیں کر رہے وگرنہ تو لفظ تلوار سے بھی تیز ہوتے ہیں جو انسان کی روح تک کو تراشیدہ و تارتار کر دیتے ہیں۔مولانا روم نے سچ ہی کہا تھا کہ
”میرا علم اگر مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزاردرجہ بہتر ہے“
اب ذہنی طور پر اپنے آپ کو فلاسفر سمجھنے والے سماج میں کون کس کو سمجھائے کہ لائن کے دائیں جانب حق پرست اور بائیں جانب جاہل مطلق ایستادہ ہیں۔کہ
اپنے اپنے دائرے میں دیکھ لو
حسب طاقت ہر کوئی فرعون ہے
یہاں مجھے والٹئیر کا ایک بہت خوبصورت قول بھی یاد آگیا کہ”جب سے دنیا معرض وجود مین آئی ہے وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں کی حکمرانی رہی ہے“۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنے بڑے بڑے میلہ کتب سجانے کے بعد اور خریداروں کا ایک انبوہ،ڈھیروں کتب کی خریداری کرنے کے بعد بھی معاشرتی استحصال و جبر سے بھرپور معاشرہ آپ کو آنکھیں چڑھا رہا ہے تو یقینا کتب میں لکھے الفاظ یا تو آپ کے دل پر اثر اندازی سے قاصر ہیں یا پھر مصنف کے خیال میں وہ کاٹ نہیں جو پتھر کا جگر بھی زخمی کردے۔سماج میں نفسا نفسا کا یہ عالم ہے کہ علم والے خود کو خدا سمجھے بیٹھے ہیں اورچند بے علم اپنی ثروت کے بل بوتے بائیس کروڑ عوم پر حکمرانی کر رہے ہیں۔اسی لئے مجھے لگتا ہے کہ ہم غلط کتابیں پڑھ رہے ہیں۔
قومیں ترقی کی شاہراہ پر مختصر وقت میں صدیوں کی مسافت طے کر لیتی ہیں اس کی ایک مثال تھامس جیفر سن کی ہے،جو امریکہ کا پہلا وزیرخارجہ،دوسرا نائب صدر اور تیسراصدر تھا۔یونیورسٹی آف ورجینیا کا بانی اور اعلان آزادی کا مصنف تھا اس کے علاوہ وہ کئی کتابوں کا مصنف،پانچ زبانوں پر عبور رکھنے والازرعی تحقیق اور فارمنگ کا دلدادہ تھا۔اس کی اپنی لائبریری میں ہزاروں کتابیں بشمول قرآن مجید کے ایک نایاب نسخے کے تھیں۔اس کا ایک مشہور زمانہ قول ہے کہ
”میں امریکہ کا صدر رہا لیکن میری خواہش ہوگی کہ میں ایک ایسے شخص کے طور جانا جاؤں جو ایک یونیورسٹی کا بانی ہو“
آج ذرا ہم اپنے اپنے گریبانوں میں بس ایک جھاتی مار کے دیکھ لیں کہ کون ہے جو خود سے جانا چاہتا ہو،ایک بار طاقت مین آگیا تو پھر اسے تقدیر ہی اٹھا تو اٹھائے وہ خود سے جان چھوڑنے والا نہیں لیکن تھامس جیفر سن جب دو بار بطور صدر اپنے فرائض منصبی ادا کر کے سبکدوش ہوگیا تو لوگوں کے استفسار کے باوجود انہوں نے امریکی صدر کے عہدہ کو یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا کہ اب نوجوان نسل اس ملک کی امین ہے۔لہذا نئی نسل کو اقتدار میں آکر امریکہ کی ترقی کو دنیا کے لئے بے مثال بنانا ہے۔
سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ خریداروں کا ہجوم بک کارنر جہلم اور لاتعداد سیلفی بنانے کا ریکارڈ رؤف کلاسرا ور راجہ انور کے سر رہا۔یہ لوگوں کی ان سے اور کتب سے محبت کی انتہا ہے۔میں اس لئے بھی مطمئن ہوں کہ میری نئی نسل ابھی کتاب کی اہمیت کو بھولی نہیں،اور نہ ہی ان کا رشتہ کتاب سے ختم ہوا۔ان لوگوں کے منہ پہ بھی یہ کتاب میلہ طمانچہ تھا جو کہتے نہیں تھکتے کہ کتابوں سے عشق کی یہ آخری صد ی ہے۔کتابیں تو خاموش استاد ہیں اگر کتاب مر گئی تو سمجھو استاد اس دینا سے رخصت ہو گیا اور اگر دونوں کا رشتہ فوت ہوا تو سمجھو معاشرہ کا جنازہ نکل گیا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International