Today ePaper
Rahbar e Kisan International

*{(کراچی اور ہم).( پس منظر ، پیش منظر)۔

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, June 5th, 2025

rki.news

( حسد/ حاسد ۔۔ معدودے چند)۔ ( خود ساختہ خطابات)۔( متشاعر متشاعرات۔ ذمہ دار کون)(دیارِ غیر سے طیورِ خوشنوا کی آمد : دل باغ باغ)}*

کراچی ہمارا آنا جانا، بچپن، لڑکپن اور جوانی میں متعدد بار ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد زیادہ تر رشتہ دار یہیں آباد ہوگئے تھے۔
1970 میں مکحمہء تعلیم سندھ کی جانب سے ایجوکیشنل جمناسٹک کا ڈپلومہ کراچی ہی سے کیا۔ اس ایک سال کے دوران زیادہ تر اچھے لوگوں سے ملاقات رہی۔ ہیرزادہ ڈاکٹر قاسم رضا، جون بھائی، سلمان لارشد، نسیم درانی، سراج منیر، ثروت حسین، تاجدار عادل، ایوب خاور وغیرہ۔
جون بھائی سے خیرہور ہی سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ تھا۔ عالمی ڈائجسٹ کے حوالے سے۔ کراچی میں کئی بار وہ ہمیں اپنے ساتھ مشاعروں میں بھی لے گئے۔ ہم رئیس امروہوی کو رئیس چچا کہتے تھے وہ ابا کے دوستوں میں سے تھے۔ کراچی آنے سے پہلے ابا کو منظوم خط لکھ کر یہاں کے حالات سے آگاہی چاہی تھی۔ (انتخابِِ کلامِ ناطق میں خط کا عکس شامل ہے)۔ رئیس امروہوی اور جون ایلیا کے والد علامہ شفیق حسن ہمارے نانا حکیم راحت علی خاں حاذق امروہوی کے گھر شعری نشستوں میں شرکت کرتے تھے)۔
1973 میں ہم نے پاک فضائیہ (ایجوکیشن برانچ ) میں شمولیت اختیار کرلی۔ ایک سال بعد کوہاٹ سے کراچی پوسٹنگ ہوگئی۔ 1974 سے 1985 تک کورنگی کراچی میں تعینات رہے۔ مشاعروں میں بھی شرکت ہوتی رہی لیکن کم۔ کورنگی کریک سے شہر آنا کارِ دارد۔ اس دوران کورنگی کریک، اور پی اے ایف کالج فیصل میں کئی مشاعرے بھی کروائے جن میں حمایت علی شاعر، سحر انصاری، صہبااختر، محسن بھوپالی، سلطانہ مہر ، راشد نور، وغیرہ شریک ہوتے رہے۔ (تصاویر منسلک ہیں)۔
1998 میں ریٹائرمنٹ لینے سے پہلے بھی دس گیارہ سال کراچی میں ہمارا مستقل قیام رہا پھر رسالپور کوچ کرنا پڑا۔

“کراچی کا شعری منظر نامہ: (1997)”

1997 میں ہماری دوبارہ کراچی تعیناتی ہوگئی۔ اس دوران کراچی کا ادبی منظر نامہ بہت حد تک تبدیل ہوچکا تھا۔ ادیبوں شاعروں کی گروہ بندیاں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہاں کا نقشہ کچھ زیادہ ہی بگڑا ہوا تھا۔
کچھ لوگ بہت تیزی سے قریب آئے، ممکن ہے یونیفارم کا کرشمہ ہو یا ہر نو وارد کو اسی طرح خوش آمدید کہا جاتا ہو۔ بہرحال جلد ہی اندازہ ہوگیا۔ ہم نے اپنے آپ کو اس ظاہری “گلیمر” سے آزاد کرلیا:

گھر کی دہلیز کا ہر قرض چکایا ہم نے
وہ جو طوفان تھا دالان میں آنے سے رہا
(ف ن خ)

ہم کراچی کے لیے نئے نہیں تھے نہ کراچی ہمارے لیے۔ یہاں کے مشاعروں میں پھر سے شریک ہونے لگے۔ جہاں پذیرائی ملی وہیں چار پانچ شاعروں پر مشتمل حاسدوں کا ایک ٹولہ بھی پیدا ہوگیا۔
شوشہ یہ چھوڑا کہ “فیروز خسروؔ کراچی میں اب (IN) ہوئے ہیں۔ ہم ان سے Senior ہیں
کیونکہ ہم پہلے سے یہاں رہ رہے ہیں”۔
ان عقلمندوں کو اب کون یہ سمجھائے کہ جو شاعر ادیب کراچی میں نہیں وہ پاکستان یا پاکستان سے باہر کسی شہر میں تو (IN) ہے۔ اس کا شعری و ادبی سفر رکا تو نہیں، جاری و ساری ہے۔
لطف کی بات یہ کہ آپس میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے سے مخلص نہیں۔ بہرحال ہماری صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ۔ ہمارا مسئلہ مشاعرہ نہیں، اچھا شعر سننا پڑھنا اور کہنا ہے:

“دیمک کی طرح چاٹ گئی راکھ حسد کی
جل جل کے بکھرتے ہیں شجر راکھ کی صورت”
(ف ن خ)

“خود ساختہ خطابات”
ایک بات اور ہم نے دیکھی جس کا دل چاہتا ہے بزعمِ خود اپنے لیے کسی خطاب کا انتخاب کرلیتا ہے۔ کوئی “شاعرِ ہفت زباں” بن جاتا ہے تو کوئی “خمیرِ گاؤ زباں” ۔ ایوارڈ بھی اسی طرح سے تقسیم ہوتے ہیں جیسے اندھا بانٹے ریوڑیاں۔۔۔ برسوں سے وہی گھسی پٹی دو چار غزلیں، کسی کا نام لے کر بطور فرمائش سناتے رہتے ہیں۔ عمریں بیت گئیں تبرک کے نام پر ایک دو مجموعے یا وہ بھی ندارد۔ واہ وا کے لیے دو چار چیلے چانٹے دَم کے ساتھ یا یوں کہیے دُم کے ساتھ :

ہزار بار سنائی غزل سناتے ہیں
وہ اپنے ساتھ ہی اب دادیے بھی لاتے ہیں
(ف ن خ)

یہاں بڑے مشاعروں میں شرکت کے لیے کاسہ لیسی اور اقربا پروری کا دخل بھی زوروں پر ہے۔
پیسوں سے مسند نشینی حاصل کی جاتی ہے۔ بہت دفعہ ہم سے بھی کہا گیا کہ آپ کے ساتھ شام منائیں گے ۔ اخبار میں کئی صفحات کا انٹرویو شائع کرتے ہیں۔ ہم نے کہا کرلیجیے۔ تان اس پر ٹوٹتی کہ آپ کیا دیں گے۔ ہم سوائے اشعار اور دعاؤں کے کیا دے سکتے سو یہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھ سکی:

بے شک غزل چھپے نہ چھپے بِن لیے دیے
ہم کو سخن میں ایسی تجارت نہیں قبول

“بہتر یہی ہے فرشِ زمیں پر رہے نشست
پیسوں سے جو ملے وہ صدارت نہیں قبول”(ف ن خ)
جاری ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International