از قلم ۔۔۔۔۔۔۔۔عامرمُعانؔ
اندھوں کی بستی میں سارے اندھے اس بات پر لڑ رہے تھے کہ کوا نیلا ہوتا ہے یا پیلا ۔
یہ لڑائی کافی طوالت اختیار کر چکی تھی ۔ تو بستی کے کچھ لوگ ساتھ والی اندھوں کی بستی سے کچھ لوگوں کو لے کر آئے کہ ہمارا فیصلہ تو کروا دو ، کہ آخر کوا کس رنگ کا ہے ۔ وہ سب ان کی لڑائی سن کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے ، کہ ہم نے بہت پہلے اس لڑائی کا فیصلہ کر لیا ہے ، اور ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ کوا لال ہوتا ہے ۔ اب ہم سب اس پر متفق ہو چکے ہیں اس لئے آپ بھی مان لو کہ کوا لال ہوتا ہے ۔
اب اس بستی کے کچھ اندھوں نے ان کی بات سن کر اپنے لوگوں پر زور دیا کہ جب انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے ، تو ہم بھی ان کا ہی فیصلہ مان لیتے ہیں۔
اب جب دوبارہ زور و شور سے ان کی بحث دوبارہ شروع ہوئی تو وہ اس بات پر لڑنے لگے کہ اگر ساتھ والی بستی کے کوے لال ہیں تو ہماری بستی کے لال کیسے ہو سکتے ہیں ۔ پھر ہمیں پتہ کیسے چلے گا کہ کون سا کوا کس بستی کا ہے ۔
اب لڑائی نیلے اور پیلے کے ساتھ ساتھ لال بھی ہو چکی تھی ۔اور جب لڑائی میں لال رنگ شامل ہو جائے تو پھر باقی رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔
ایک دن ایک بینا آدمی ان کی بستی سے گزر رہا تھا ۔ اس نے ان سے لڑنے کا سبب پوچھا ۔بستی والوں نے بتایا کہ ہمیں بتاؤ کہ آخر یہ کوا نیلا ہوتا ہے ، پیلا ہوتا ہے یا لال ؟ اس نے ان کو بتایا کہ کوا تو کالا ہے اور چونکہ میں دیکھ سکتا ہوں تو اس لئے تم سب کو درست درست بتا رہا ہوں ۔ اب تم سب یہ لڑائی ختم کر دو کیونکہ میں نے رنگ بتا دیا ہے ۔
ان اندھوں میں سے کچھ نے کہا کیا پتہ یہ آنکھوں والا ہم کو بے وقوف بنا رہا ہو ؟ کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ ہم دیکھ نہیں سکتے ۔ اب انہوں نے بینا آدمی سے کہا دیکھو بھائی ہمارا جھگڑا تو کوا نیلا ہے ، پیلا ہے یا لال، اس پر ہے تم ایک نیا رنگ کیوں لے آئے ہو ؟ اس کا مطلب ہے کہ تم جھوٹے ہو ۔
بستی کے کچھ اندھے اس بینا آدمی کے طرفدار ہوگئے کہ یہ آنکھوں والا ہے اور چونکہ یہ دیکھ سکتا ہے اس لئے یہ سچ ہی بول رہا ہوگا ۔ لیکن جو اس کے مخالف تھے وہ کہنے لگے نہیں ، یہ جھوٹ ہی بول رہا ہے ۔
انہوں نے حمایت کرنے والوں سے پوچھا ، اچھا بتاؤ تمھارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ سچ بول رہا ہے ؟ دوسروں نے کہا ایسی بات ہے تو تم بتاو تمھارے پاس کیا ثبوت کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ؟
اب لڑائی کے فریق بڑھ چکے تھے نیلا ، پیلا ، لال ، کالا ۔ ہر رنگ کے حمایتی بھی آپس میں دست و گریبان ہو چکے تھے ۔ اب نیلا اور لال رنگ والوں نے مل کر سوچا کہ ہم اتحاد بناتے ہیں تاکہ ہماری اکثریت ہو جائے اور ہم کہہ دیں گے کہ آدھا کوا نیلا ہے اور آدھا لال ۔ اس طرح ہماری اکثریت کی وجہ سے سب کو یہ بات ماننی پڑے گی ۔ اب ان کا مضبوط اتحاد قائم ہو گیا ۔ اور یہ دھونس دھمکیوں سے کہنے لگے کہ کوا تو نیلا اور لال ہے ۔ باقی سب رنگ کے حمایتی جھوٹے ہیں۔ پیلے رنگ والوں نے کہا اس طرح تو ہماری بات جھوٹی ثابت ہو رہی ہے ، تو ان کی مضبوط اکثریت کم کرنے کے لئے ہم ان میں سے کچھ لوگ اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کوا نیلا اور لال نہیں بلکہ نیلا اور پیلا ہے ۔ اب ان کے کچھ ہم نوا ٹوٹ کر الگ ہو گئے کہ ہمارا تو جھگڑا ہی نیلا اور پیلا ہونے پر تھا تو اصل میں یہ انہی دونوں رنگ کا ہوتا ہے ۔ اب ایک اور اتحاد قائم ہو چکا تھا اور جھگڑا پھر برابر کا ہو گیا تھا
بستی میں ہر طرف مختلف رائے والوں کے درمیان یہ جھگڑا روز کا دنگا بن چکا تھا ۔ یہ سب کسی کا فیصلہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہے تھے ۔
جب بات حد سے بڑھی تو کچھ لوگ یہ مقدمہ لے کر بستی کے سب سے عقلمند انسان قاضی کے پاس پہنچ گئے ، کہ آپ ہمارا فیصلہ کروا دو کہ کوا آخر کس رنگ کا ہوتا ہے ؟
قاضی نے سب کو بلا لیا کہ ہم سب کے دلائل کی روشنی میں ہی فیصلہ کریں گے کہ آخر کوا کس رنگ کا ہے۔
سب نے اپنے اپنے رنگ پر زور دینا شروع کر دیا تو قاضی نے پوچھا یہ بتاؤ آخر کوا ان ہی رنگوں کا کیوں ہو جو تم کہہ رہے ہو ، کوا تو سبز بھی تو ہو سکتا ہے ؟ اب ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا چونکہ قاضی ہمارے درمیان سب سے عقلمند ہے اس لئے ہم کو تسلیم ہے کہ کوا سبز ہی ہوتا ہے ۔ اب بستی کے کچھ کہنے لگے کہ قاضی تو خود اندھا ہے پھر اس کو کیسے پتہ کہ کوا سبز ہوتا ہے؟ اس لئے ہم قاضی کی بات نہیں مانیں گے
اب یہ صورتحال ہے کہ بستی مختلف الرائے لوگوں میں پوری طرح بٹ چکی ہے ۔ آئے دن لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ بن چکے ہیں ۔ ہر طرف انارکی کا دور دورہ ہے ، لوگ ایک دوسرے کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔اور اس لڑائی کا شور اتنا بڑھ گیا تھا کہ کوؤں کے شور بھی دب جاتا تھا ۔ کوئے اتنا شور سن کر کب کے بستی چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں ۔ لیکن لڑائی اب بھی جاری ہے کہ جب کوا ہماری بستی میں رہتا تھا تو آخر کس رنگ کا ہوتا تھا ؟
Leave a Reply