عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونان کے جزیرہ کریٹ کے قریب کچھ کشتیاں 40 پاکستانیوں کے لئے موت کا پیغام لے کر آئیں ، کچھ دن کی تلاش کے بعد یونان کوسٹ گارڈز نے مزید تلاش کا کام روک کر باقی مسافروں کو ہلاک شدگان میں تصور کر لیا ہے اور یوں یونان کا سمندر ایک بار پھر کئی بےگناہ پاکستانیوں کی قبر بن گیا ہے ۔ کچھ دن سے اس حادثے کی خبر گرم ہے ۔ یوں لگتا ہے بس رسمی کاروائیاں دھرائی جا رہی ہیں یعنی پھر سے ایک حادثہ ہوا ہے ، پھر سے بیانات جاری ہوئے ہیں ، سنا گیا ہے کہ پھر سے کچھ چھوٹی مچھلیوں جن کی تعداد اب تک 3 تک پہنچی ہے ، کی گرفتاری بھی ہو گئی ہے ، لیکن اس سب کے بعد کیا ہوگا ؟؟ پہلے کے حادثوں کی طرح کا ماحول بنا کر پھر ایک طویل خاموشی چھا جائے گی ۔اور پھر سے وہی انسانی اسمگلنگ کا کاروبار دوبارہ اسی عروج پر شروع ہو جائے گا ۔ عوام کو پہلے کی طرح اندھیرے میں رکھا جائے گا۔ پہلے حادثوں کے گرفتار ملزم کب آزاد ہوئے کسی کو خبر نہیں ہو گی۔کسی کے خلاف کیس چل رہا ہے ؟ کچھ پتہ نہیں چلے گا ۔ میڈیا ہمیشہ کی طرح اپنا پرانا کردار ادا کرتے ہوئے کچھ دن شور مچا کر خاموش ہو جائے گا ۔ اور پھر زندگی اسی پرانی ڈگر پر رواں ہو جائے گی ۔ کیا حکومتی اداروں کا اب صرف یہی طریقہ کار رہ گیا ہے کہ ہر حادثے پر مٹی ڈالتے جاؤ ؟ کیا مرنے والے اتنے ہی بے یار و مددگار ہیں ؟ شائد اس سے زیادہ کاروائیاں تو دیگر ممالک میں جانوروں کے مرنے پر ہو جاتی ہوں گی کہ قصوروار سزا تک تو پہنچ سکیں ۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ دو سال کے دوران مختلف کشتی حادثات میں 350 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ لیکن اس کے کتنے ذمہ داران کو سزا ہوئی ؟ اس کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے کیونکہ اس کی تعداد ابھی تک صفر سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے ۔
یاد رہے کہ پاکستان کے قانون کے مطابق معصوم شہریوں کو دھوکہ دے کر ، سبز باغ دکھا کر یا بہلا پھسلا کر انسانی اسمگلنگ جیسا قبیح فعل انجام دینا ایک قابل تعزیر جرم ہے ۔ جس میں ملوث تمام افراد پاکستان کے قانون کے مطابق مجرم ہیں ۔ ان جرائم کی سزائیں قانون میں درج بھی کر دی گئی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ کاروبار زور و شور سے جاری و ساری ہے اور ملک میں موجود بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ پاکستان سے باہر غیر قانونی طور پر ہجرت کر جاتے ہیں ۔ نہ ادارے ان افراد پر اپنی گرفت مضبوط کر پاتے ہیں اور نہ قانون سزاؤں کا خوف قائم کر پاتا ہے ۔ پھر ایک حادثہ ہو جاتا ہے اور پھر سے عوام کو یوں بھاگ دوڑ کر کے دکھائی جاتی ہے جیسے اب کی بار تو سب کچھ قانون کے مطابق ہی کیا جائے گا ۔ جلد سب قصوروار سزا کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے ۔ لیکن پھر سب کچھ مٹی کی دھول میں اٹی فائلوں میں دبا رہ جاتا ہے ۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ ان نوجوانوں کی دادرسی کی جائے ۔
اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ جب تک ملک میں غربت اور بے روزگاری موجود رہے گی نوجوان اسی طرح کے پرخطر سفر اختیار کرتے رہیں گے ۔ جس میں موت اور زندگی کے درمیان تنی ایک باریک رسی پر چل کر اپنا خواب پورا کرنا پڑتا ہے۔ ان نوجوانوں کو جھانسہ دینے والے یہ سنہرا باغ دکھاتے ہیں کہ بس ایک بار یورپ پہنچ جاؤ تو سارے غم دور ہو جائیں گے ۔ لیکن ان نوجوانوں کو کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر کسی طرح بچ بچا کر یورپ پہنچ بھی گئے تو غیر قانونی شہری کے طور پر کئی طرح کی سختیاں اور مشکلات ان کا استقبال کرنے کو تیار ہوں گی ۔ اس معاملے پر حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ آج تک اصل مجرم بے نقاب نہیں ہو سکے ہیں کہ اصل میں وہ کون سے کردار ہیں جو اتنا مضبوط نیٹ ورک قائم کئے ہوئے ہیں ۔
اس موجودہ حادثے کے بعد بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے اور حکومتی حلقوں میں بھی وقتی ہلچل ہوتی رہے گی ۔ لیکن اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا ، اور پھر کئی جوان کسی ساحل پر یورپ جانے والی کشتی کے انتظار میں کھڑے ہوں گے ۔
Leave a Reply