rki.news
{“ایک ادب کا آفتاب تو دوسرا ماہتاب”۔ کسے صدارت کی زحمت دوں” ناظمِ مشاعرہ منصور عاقل۔ (“کیا گلبدنی گلبدنی ہے”۔۔جوش)۔(“مجاہدو”۔حمایت علی شاعر) (“شکریہ شکریہ”۔۔رحمان کیانی)۔(“پاکستانی بڑے لڑیا”۔۔ نفیس فریدی بدایونی)۔ (“بج رہا ہے سازِ جنگ”۔ ہوٹنگ یا داد۔۔ فیروز خسروؔ}
1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے عوام نے خصوصا” شاعروں، گلوکاروں، موسیقاروں نے جس طرح اپنی افواج کے حوصلے بڑھائے ہماری تاریخ کا وہ سنہری باب ہے۔
جنگ کے بعد زمانہء امن میں ایک آل پاکستان مشاعرہ سکہر میں منعقد ہوا۔ ملک کے تقریبا” تمام بڑے شعراء اس میں شریک ہوئے۔ میری یاداشت جہاں تک کام کرتی ہے۔ جوش، فیض، شور علیگ، نازش حیدری، ظہیر کاشمیری، مصطفےٰ زیدی، کلیم عثمانی، رحمان کیانی، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، صہبا اختر، عبداللہ جاوید، منظر ایوبی، شوکت عابدی، منصور عاقل، ناطق بدایونی، زخم بدایونی، بیربل جبلپوری ( معذرت جو نام میری یاداشت میں نہیں رہے)۔
مشاعرے کا پنڈال ایک وسیع و عریض میدان میں سجا ہوا تھا۔ بہت بڑے اسٹیج۔ درمیان میں جوش صاحب اور فیض صاحب فروکش تھے۔ اردگرد باقی شعراء۔
مشاعرے کی نظامت منصور عاقل (اسسٹنٹ ڈاریکٹر محکمہء اطلاعات خیرپور) کر رہے تھے۔ کسی بڑے مشاعرے میں یہ میری پہلی شرکت تھی۔ میں اس وقت “بی ایس سی ” کا طالب علم تھا۔ منصور عاقل صاحب نے نام پکارا۔ میں نےاپنی تازہ لکھی ہوئی نظم (ترانہ) پڑھنا شروع کی۔ سامعین نے اس پر تال دینا شروع کردیا۔ میں سمجھا کہ مجھے “ہوٹ” کیا جارہا ہے۔ واہ واہ وا کی بجائے تالیوں کی گونج میرے لیے نئی تھی۔ اگر واہ واہ کہہ کر کسی نے داد دی بھی ہوگی تو اس شور میں کہاں سنائی دیتا۔
مشاعرہ بڑی کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ہر شاعر اپنا منتخب کلام سنا رہا تھا۔ سامعین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ سب کو خوب داد مل رہی تھی۔ تالیوں کا رواج اس وقت تک نہیں تھا۔ محسن بھوپالی کے قطعات کی بڑی شہرت تھے۔ خوب داد سمیٹی۔ صہبا اختر کا اندازِ سخن جدا تھا۔ گھن گھرج کے ساتھ اپنا رزمیہ کلام پیش کیا۔ حمایت علی شاعر سے “مجاہدو۔۔جاگ اٹھا ہے سارا وطن ” کی فرمائش کی گئی۔ خوبصورت ترنم، ماتھے پر سے آئی ہوئی لَٹ کو ہٹاتے ہوئے دل موہ لینے کے انداز میں فرمائشیں پوری کرتے رہے۔ رحمان کیانی نے اپنی مشہور نظم جو انہوں نے جنگ کے بعد تحریر کی تھی پیش کی “شکریہ شکریہ۔۔انہیں بھی عوام نے داد و تحسین کے دوران سنا۔ پروفیسر شور عیلگ نے اپنی رباعیات پیش کیں۔
نصف شب گزر چکی تھی شعراء کی خاصی تعداد ابھی باقی تھی۔ یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا۔آخر میں جوش صاحب اور فیض صاحب کلام سنانے کے لیے رہ گئے۔ عاشقانِ سخن اپنے محبوب شعراء کا کلام سننے کے مشتاق۔ صدارت جوش صاحب کی تھی لیکن نجانے کیوں ناظمِ مشاعرہ تذبذب کا شکار، اپنا رخ جوش صاحب اور فیض صاحب کی طرف کرکے گویا ہوئے “ایک شعر و ادب کا آفتاب ہے تو دوسرا ماہتاب، میری یہ مجال نہیں کہ کسی ایک کو زحمتِ کلام دوں، آپ دونوں حضرات خود فیصلہ کرلیں۔ چند لمحوں کے لیے سناٹا چھا گیا۔ جوش صاحب زَمِین جُن٘بَد نَہ جُن٘بَد گُل مُحَمَّد کے مصداق اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ فیض صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھا اور مسکراتے ہوئے مائک کے سامنے آبیٹھے۔ لوگ غزلوں، نظموں کی فرمائشیں کرتے رہے۔ فیض صاحب اپنے مخصوص دھیمے انداز میں کلام سناتے رہے۔ مشاعرہ گاہ میں سکہر کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی لوگ اپنے محبوب شعراء کا کلام سننے آئے ہوئے تھے۔ مصطفیٰ زیدی نواب شاہ کے ڈپٹی کمشنر تھے ۔ وہاں کے لوگ بھی کافی تعداد میں شریک تھے۔ خیرہور، میرپور خاص کے صاحب ذوق کی شمولیت بھی نمایاں تھی۔ فیض صاحب داد و تحسین کی گونج میں کلام سنا کر ہٹے تو مائک جوش صاحب کے سامنے پہنچا دیا گیا۔ تمام شعراء نصف دائرے میں جوش صاحب کے نزدیک ہوگئے۔ اس روز کلام سنانے اور سننے کا جو منظر نظر آیا، دیدنی تھا۔
جوش صاحب نے اپنی نظم “کیا گلبدنی گلبدنی ہے” اپنے مخصوص انداز میں سنانا شروع کی ۔ ہم سب مصطفےٰ زیدی کے ہمراہ مصرع اٹھاتے ۔ جوش صاحب کا جوش بڑھتا جارہا تھا۔ اسٹیج پر موجود شعراء کے ساتھ ساتھ اب سامعین بھی مصرع اٹھارہے تھے۔
جوش صاحب کا سرخ و سپید چہرہ بجلی کے قمقموں کی روشنی میں مارے جوش کے تمتما رہا تھا اور فضا میں “کیا گلبدنی گلبدنی گلبدنی ہے” کی صدا گونج رہی تھی:
“کیا گل بدنی ہے”
کس درجہ فسوں کار وہ اللہ غنی ہے
کیا موجۂ تابندگی و سیم تنی ہے
انداز ہے یا جذبۂ گردوں زدنی ہے
آواز ہے یا بربط ایماں شکنی ہے
جنگل کی سیہ رات ہے یا زلف گھنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
یہ لے ہے کہ کھلتی ہوئی غنچے کی کمانی
مہکا ہوا یہ تن ہے کہ یہ رات کی رانی
لہجے کی یہ رو ہے کہ برستا ہوا پانی
لرزش میں یہ مژگاں ہے کہ پریوں کی کہانی
یہ سرخیٔ لب ہے کہ عقیق یمنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
محراب ہے رخسار کے پرتو سے زر افشاں
زلفوں میں شب تار ہے آنکھوں میں چراغاں
مہندی کی سجاوٹ کہ ہتھیلی پہ گلستاں
یا حلقۂ عشاق میں ہے چہرۂ تاباں
یا خاتم تابندہ پہ ہیرے کی کنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
سینے پہ یہ پلو ہے کہ اک موج حیابی
ماتھا ہے کہ اک صبح کا پرتو ہے شہابی
آنکھیں ہیں کہ بہکے ہوئے دو مست شرابی
پیکر ہے کہ انسان کے سانچے میں گلابی
گیسو ہیں کہ گل بازیٔ مشک ختنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کاکل میں درخشاں ہے یہ پیشانی رقصاں
یا سایۂ ظلمات میں ہے چشمۂ حیواں
ہاتھوں پہ ہے یہ چہرہ کہ ہے رحل پہ قرآں
اور چہرۂ گل رنگ میں غلطاں و خروشاں
رخشندگی خون رگ یاسمنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
عشوے ہیں کہ اک فوج کھڑی لوٹ رہی ہے
چھل بل ہے کہ چھاتی کو زمیں کوٹ رہی ہے
انگڑائی کا خم ہے کہ دھنک ٹوٹ رہی ہے
مکھڑا ہے کہ پربت پہ کرن پھوٹ رہی ہے
قامت ہے کہ برنائی سرو چمنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
تن میں ہے وہ خوشبو کہ ہیں گل سر بہ گریباں
چہرے پہ وہ سرخی ہے کہ حیران گلستاں
وہ چال میں ہے لوچ کہ شاخیں ہیں پشیماں
اور لعل گہر بار پہ وہ نغمہ ہے غلطاں
وہ نغمہ کہ اک ولولۂ شعلہ زنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
گردن میں چندن ہار ہے ہاتھوں میں ہے کنگن
امڈے ہوئے عشوے ہیں گرجتا ہوا جوبن
جولاں ہے جوانی کے دھندلکے میں لڑکپن
کورا ہے جو پنڈا تو جنوں خیز ہے ابٹن
گل رنگ شلوکا ہے قبا ناردنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
خلوت میں وہ تسلیم ہے جلوت میں تحکم
ساحل پہ سبک موج سفینے میں تلاطم
حجرے میں خموشی ہے شبستاں میں تکلم
خیمے میں تنک آہ خیالوں میں ترنم
آغوش میں تلوار ہے گھونگھٹ میں بنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
ہر نقش قدم پر ہے فدا تاج کیانی
ہر گام میں ہے چشمۂ کوثر کی روانی
ہر ایک بن مو سے ابلتی ہے جوانی
اٹھتی ہے مسامات سے یوں بھاپ سی دھانی
گویا کوئی مہکی ہوئی چادر سی تنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے … (جاری ہے)
Leave a Reply