Today ePaper
Rahbar e Kisan International

{(کل پاکستان مشاعرہ، سکھر کے شعراء کی خیرپور آمد)

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Tuesday, April 22nd, 2025

rki.news

(آغا ساحل قزلباش، کی قیام گاہ پر شعری نشست)۔(“صاحبزادے آپ ہی شعر کہتے ہیں” ظہیر کاشمیری)}

روہڑی مشاعرے کے بعد تمام مہمان شعراء کے لیے آغا ساحل قزلباش (ڈاریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن) نے خیرپور میرس میں اپنی قیام گاہ پر شعری نشست کا اہتمام کیا۔ چند منتخب خیرپور کے شعراء بھی مدعو تھے جس میں ہم بھی شامل تھے۔ آغا ساحل قزلباش نہایت متواضع طبیعت کے حامل، شعر و ادب کے دلداہ شخص تھے۔ ان کی بیگم لیلی’ قزلباش ناول نگار تھیں۔ ان کی اکثر ناولوں کے آخری چند صفحات پر آغا صاحب کا تازہ کلام ہوتا تھا۔

پرتکلف عشائیہ کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا۔ مجھے دعوتِ کلام دی گئی۔ غزل پسند کی گئی۔ اس سے پیشتر میں اپنی نشست کا رخ کرتا جناب ظہیر کاشمیری نے کہا صاحبزادے ایک غزل اور پڑھیے۔ اور لوگوں نے بھی ان کی تائید کی۔ دوسری غزل پر بھی بہت داد ملی۔ ابھی میں مائیک رکھ کر ہٹا ہی تھا کہ ظہیر کاشمیری گویا ہوئے صاحبزادے تیسری غزل۔میرے لیے یہ بڑے اچنبے کی بات تھی۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا بلکہ کبھی دوسری غزل پڑھنا چاہا بھی تو ناظم مشاعرہ یا صدرِ محفل نے ٹوک دیا۔ یہاں معاملہ کچھ زیادہ ہی مختلف تھا۔ حاضرین بھی متحیر نظر آرہے تھے۔ ہم نے اپنی تیسری غزل سنانا شروع کی۔ مقطع کے بعد اپنی جگہ کھڑے رہے کہ مبادہ چوتھی غزل کا نادر شاہی حکم نہ صادر ہوجائے۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ ظہیر کاشمیری کی آواز گونجی۔ “صاحبزادے خود ہی شعر کہتے ہو”۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ آغا صاحب کے نشست گاہ تالیوں سے گونج اٹھی۔

یہ میری شاعری یا میرا امتحان تھا۔ بعد میں والد صاحب نے بتایا کہ ظہیر کاشمیری یقین کرنے پر آمادہ نہیں تھے تمہاری عمر اور کلام کی پختگی پر۔ اسی لیے انہوں نے یکے بعد دیگرے تین غزلیں سن کر اپنا اطمینان کیا۔ تمہاری شاعری میں جو فکر، لفظیات اور رنگ انہیں نظر آیا اس کا برملا اظہار تمہارے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے۔

آج بھی جب منافقت اور حسد آمیز رویوں کا سامنا ہوتا ہے تو برسوں پہلے کہے ہوئے اس بڑے آدمی ظہیر کاشمیری کا وہ جملہ کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم محسوس نہیں ہوتا،
“صاحبزادے خود ہی شعر کہتے ہو”۔

“ہے نزولِ شعر خسروؔ میرے مالک کی عطا
شعر کہنا کب مجھے بے ساختہ دشوار ہے”

(فیروز ناطق خسروؔ)

“طرحی غزل”
(پہلی غزل)

کوڑیوں کے مول بکتے سیم و زر دیکھا کیے
خاک میں رلتے ہو ئے لعل و گہر دیکھا کیے

جس نے دیکھی تھیں جبینُ شوق کی بیتابیاں
ٹھوکروں کی زد میں ہم وہ سنگِ در دیکھا کیے

منزلیں آتی رہیں نزدیک راہیں گم ہوئیں
نقشِ پا بنتے رہے ہم رہگر دیکھا کیے

شمع جلتی ہو کہ پروانے سے اٹھتا ہو دھواں
تیرگئی شامِ غم کی ہم سحر دیکھا کیے

جب بھی آئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اجنبی نظروں سے گھر کے بام و در دیکھا کیے

زندگی دشوار سے دشوار تر خسروؔ ہوئی
اُن کی ہم زلفوں کا پیچ و خم مگر دیکھا کیے

(فیروز ناطق خسروؔ)
۔۔۔۔۔۔۔۔

“طرحی غزل”
(دوسری غزل)

ہر سانحے کو ہنس کے گوارا کیا تو کیا
جھوٹی تسلیوں کا سہارا لیا تو کیا

ہر رنگ میں جنوں کی وہی شورشیں رہیں
گو ہم نے اپنا چاک گریباں سیا تو کیا

پھر بھی سکونِ قلب کا سامان نہ ہو سکا
امرت سمجھ کے زیر بلابل پیا تو کیا

اشکوں سے لطفِ خاص کا چسکہ نہ چھٹ سکا ہوں دل کو آشنائے تبسم کِیا تو کیا

دنیا میں ظلم و جور کے تیور وہی رہے
سقراط نے جو زہرِ ہلاہل پیا تو گیا

احساس کے صحن میں وہی تیرگی رہی
مانگے ہوئے دیوں سے اجالا کِیا تو کیا

خسروؔ ہے اک فریبِ مسلسل یہ زندگی
اوجِ فلک کو زیرِ کفِ پا کِیا تو کیا
۔۔۔۔۔۔۔
“غزل”
(تیسری غزل)

جو زخم آج لگا ہے وہ بھر بھی جائے گا
یہ وقت آ تو گیا ہے گزر بھی جائے گا

تراشتا ہوں میں ہر روز نت نئے پیکر
کبھی تو دل سے مرے وہ اُتر بھی جائے گا

بہا کے لے گئی بارش چھتوں کی سب مٹی
چڑھے گی دھوپ تو اپنا یہ گھر بھی جائے گا

میں اپنے آپ سے خائف وہ مجھ سے خوفزدہ
یہ شب ڈھلے گی تو اپنا یہ ڈر بھی جائے گا

نہ کر ملال کسی کی گریز پائی کا
ہوا کی زد پہ جو آیا بکھر بھی جائے گا

مرے عزیز یہ سوچا نہ تھا کبھی میں نے
جو شخص ہے مرے اندر وہ مر بھی جائے گا

تمام ہوگی نہ اپنی مسافرت خسروؔ
ہمارے ساتھ یہ شوق سفر بھی جائے گا
(فیروز ناطق خسروؔ) جاری ہے ۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International