فاضل شفیع بٹ
انت ناگ،جموں و کشمیر
انڈیا
” صاحب ۔۔۔وہ پیسے۔۔….۔۔؟؟ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ میری بچی بیمار ہے۔ اگر آپ مہربانی کر کے وہ پیسے دلوا دیتے تو آپ کا احسان مند رہتا” غلام علی نہایت انکساری کے ساتھ سرکاری افسر سیار کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔
” علی۔۔۔۔۔۔۔ تم نے میرا دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ پیسے علاج و معالجہ کے لیے نہیں ہیں۔ وہ ایک سرکاری اسکیم کے تحت تم کو مکان تعمیر کرنے کے لیے فراہم کرنے تھے لیکن تم نے پہلے سے ہی مکان تعمیر کیا ہے۔ اب کون سے پیسوں کی بات کر رہے ہو؟ دفع ہو جاؤ میرے دفتر سے۔۔” سیار غلام علی سے تلخ لہجے میں مخاطب تھا۔
” جناب سیارصاحب۔۔ میں نے چند ماہ پہلے ہی مکان تعمیر کیا ہے۔ سرکار ہم غریبوں کو ایک لاکھ روپے کی رقم فراہم کرتی ہے۔ آپ سے پہلے والے صاحب کے کہنے پر میں نے اپنی زمین بیچ کر اپنے اہل خانہ کے لیے ایک مکان تعمیر کیا۔ اب جب میرا مکان تعمیر ہو چکا ہے پھر آپ یہ حیلے بہانے کر کے مجھ غریب پر اتنا ظلم کیوں کر رہے ہیں؟” غلام علی پٌرنم آنکھوں سے سیار سے مخاطب تھا۔
” ابھی تم میرے دفتر سے فوراً دفع ہو جاؤ۔ میرے پاس اور بھی بہت کام ہے۔ میرا سر مت کھپاؤ” سیار نے غلام علی کو دفتر سے دھکے مارکر باہر نکال دیا۔
غلام علی پیشے سے مزدور تھا جو گھر کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ اس کا باپ کینسر کا مریض تھا۔ غلام علی ٹین کے شیڈ میں سکونت پذیر تھا اور سرکار نے ایک سال پہلے ایک اسکیم کے تحت اسے ایک لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے لیے غلام علی کی رجسٹریشن وغیرہ سب کچھ مکمل ہو چکا تھا اور اسے ان پیسوں کا بے صبری سے انتظار تھا۔ ایک سرکاری افسر نے غلام علی کو اس بات کی یقین دہانی دلادی کہ وہ اپنا مکان تعمیر کرے اور پیسوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں۔ اسی بات کو لے کر غلام علی نے اپنی زمین بیچ کر ایک چھوٹا سا مکان تعمیر کیا اور پیسوں کے لیے سرکاری دفتر کے چکر لگاتا رہا۔
سرکاری افسر کا اچانک سے تبادلہ ہوا اور اس کی جگہ سیار صاحب نے لے لی۔ غلام علی نے سیار کے سامنے اپنا دکھڑا سنایا۔ سیار غلام علی کے مکان کا جائزہ لینے کے بعد ایک دم سے مکر گیا۔ اس نے غلام علی سے مخاطب ہو کر بولا:
” دیکھ غلام علی۔۔ سرکار مکان تعمیر کرنے کے لیے کچھ رقم امداد کے طور فراہم کرتی ہے۔ چونکہ تمہارا مکان پہلے سے ہی تعمیر شدہ ہے اس لیے یہ رقم اب تم کو نہیں مل سکتی۔ تمہارا نام لسٹ سے حذف کیا جائے گا”
غلام علی سیار کے سامنے کافی گڑگڑایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو کا سیلاب امڈ آیا لیکن سیار ٹس سے مس نہ ہوا۔
غلام علی کی آمدنی کا آدھے سے زیادہ حصہ اس کے بیمار باپ کی ادویات کی خریداری میں صرف ہوتا اور بچی کھچی رقم سے مکان کا قرض اور بیوی بچوں کا بڑی مشکل سے پیٹ پالتا تھا۔ اسے ایک لاکھ روپے کی آس تھی۔ یہ ایک ایسی امید تھی جس کے سہارے وہ جی رہا تھا۔ ایک لاکھ کی رقم ملتے ہی اس کا سارا قرض ختم ہو جاتا ہے، اس کے بیمار باپ کا علاج ہو جاتا، اس کے بیوی بچوں کو ڈھنگ کا کھانا مل جاتا ہے۔ مگر یہ امید کی ایک ایسی کرن تھی جو دور افق کے گہرے اور کالے بادلوں کے بیچ کہیں دب گئی تھی۔
کافی تگ ودو کے بعد غلام علی نے سیار کے چہیتے چپراسی ولی محمد کے گھر جا کر اس کے پیر پکڑ لیے۔ وہ اس کے سامنے بھیک مانگ رہا تھا۔ غلام علی اپنا حق حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ ولی محمد نے قدرے اطمینان سے غلام علی سے کہا:
” دیکھ علی بھائی۔۔۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں کل صاحب سے بات کر لوں گا۔ صاحب دل کے بہت اچھے ہیں۔ تو بے فکر رہ۔۔”
ولی محمد دعائیں دیتا ہوا ولی محمد کے گھر سے رخصت ہوا۔
صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ سورج کی کرنیں ہر سمت پھیلی ہوئی تھی۔ غلام علی اپنے آنگن میں سورج کی کرنوں کا باریکی سے جائزہ لے رہا تھا شاید وہ اپنی امید کی کرن ڈھونڈنے میں محو تھا۔ اسی اثناء میں ولی محمد سیار کے ہمراہ غلام علی کے آنگن میں نمودار ہوا۔ غلام علی ایک دم سے چونک گیا۔ اس نے اپنے سر کو جھٹکا۔ یہ کوئی خواب نہ تھا بلکہ سیار صاحب حقیقت میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔
” غلام علی۔۔ ولی محمد نے کل شام کو ہی مجھے آپ کی مجبوریوں کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ میرے دل کو کافی گراں گزرا۔ لیکن میں اپنی نوکری کے ساتھ بھی کھلواڑ نہیں کر سکتا۔ باقی تمہیں ولی محمد خود سمجھا دے گا” سیار میٹھے لہجے میں غلام علی سے مخاطب تھا۔
ولی محمد نے غلام علی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے گھر کے اندر لے آکر کمرے میں بیٹھ کے بولا:
” دیکھ علی بھائی۔۔ تم نے مکان پہلے ہی تعمیر کیا ہے اور سرکاری اسکیم کے قواعد و ضوابط کے تحت تمہارے نام کو لسٹ سے حذف کیا جائے گا لیکن میں نے سیار صاحب کو آپ کے حالات سے آگاہ کیا۔ سیار صاحب بہت رحم دل ہیں۔ لیکن آپ کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کچھ پیسے خرچ کرنے پڑیں گے۔ مکان تو تم پہلے ہی تعمیر کر چکے ہو گویا اب سرکار تمہیں مفت میں ایک لاکھ کی رقم فراہم کرے گی۔ اور یہ رقم حاصل کرنے کے لیے تم کو تیس ہزار خرچ کرنے ہوں گے۔ سوچ لو کیا کرنا ہے”
غلام علی مایوسی کی حالت میں بولا:
” ولی صاحب جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔ آپ جیسا بولو گے میں ویسا ہی کروں گا کیونکہ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے لیکن ابھی میرے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں”
” غلام علی میں نے بڑی محنت سے صاحب کو اس کام کے لیے رضامند کیا ہے۔ کسی سے قرض لے کر ساری رقم ابھی فراہم کر دو۔۔۔ نہیں تو بھول جاؤ۔۔” ولی محمد نے تلخ لہجے میں غلام علی کو انتباہ کیا۔
غلام علی دم سادھے کھڑا ہو گیا اور ولی محمد کو انتظار کرنے کے لیے کہا۔
غلام علی کے آنگن میں منتظر سیار کو پیاس کا احساس ہوا۔ اس نے پانی کا گلاس طلب کیا۔ غلام علی کی سات سالہ بچی نے اپنے ننھے ہاتھوں میں پانی کا گلاس لے کر سیار کے ہاتھ میں تھما دیا۔ سیار یہ دیکھ کر چونک گیا کہ غلام علی کی بیٹی جذام کی مریضہ ہے۔ اس کی انگلیاں جذام کے مرض کے باعث جکڑ گئی ہیں۔ سیار نے پانی پیا اور گلاس بچی کو واپس کر دیا۔
ایک آدھ گھنٹہ گزر جانے کے بعد غلام علی پسینے میں شرابور ٹوٹے قدموں کے ساتھ گھر میں نمودار ہوا اور ولی محمد کے ہاتھ میں تیس ہزار کی رقم تھما دی۔ غلام علی نے کسی سے قرض لے کر اپنی بیوی بچوں کے پیٹ پر پتھر رکھ کر رشوت کی رقم ادا کی تھی۔
سیار ولی محمد کے ہمراہ غلام علی کو بھروسہ دلا کر وہاں سے رخصت ہوا۔
ولی محمد نے رشوت کی پوری رقم اپنے صاحب کے حوالے کر دی۔ سیار نے پانچ ہزار کی رقم ولی محمد کو تھما دی اور باقی کے پچیس ہزار اپنے جیب میں رکھ کر اپنے گھرکی جانب چل پڑا۔
راستے میں سیار کی بیوی نے سیار کو فون کیا۔ اس کی سات سالہ بیٹی بلک بلک کر رو رہی تھی۔ وہ اپنی ماں سے فون چھین کر بولنے لگی:
” ابو جی۔۔ ابو جی۔ مجھے کوئی اچھا سا کھلونا چاہیے۔ آپ جلدی گھر آجاؤ لیکن کھلونا ساتھ میں لے کر آنا”
اپنی بیٹی کو روتے دیکھ، سیار نے بازار میں اپنی گاڑی روک دی اور ایک قیمتی گڑیا اپنی بیٹی کے لیے خرید لی۔
گھر آتے ہی سیار نے گڑیا اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں تھما دی۔ وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ وہ اپنے ابو جی کو چوم رہی تھی۔ اچانک گڑیا سیار کی بیٹی کے ہاتھوں سے فرش پر گر گئی۔ گڑیا کا ایک ہاتھ ٹوٹ گیا۔ سیار کے دل و دماغ میں غلام علی کی بیٹی کا خیال آیا جو جذام کے مرض میں مبتلا تھی، جس کا ایک ہاتھ بیکار ہو چکا تھا ٹھیک اسی طرح جس طرح گڑیا کا ایک ہاتھ ٹوٹ چکا تھا۔ اپنی رشوت کی کمائی سے آج اس نے اپنی بیٹی کو تسکین کا سامان فراہم تو کیا تھا اور دوسری جانب غلام علی نے کسی سے قرض لے کر اپنی بیوی بچوں کو فاقہ کشی کرنے پر مجبور کیا تھا۔
غلام علی کی بیٹی کے خیالات نے سیار کو اپنی گرفت میں لیا۔ اس نے جلدی سے اپنے کمپیوٹر پر غلام علی کے رقم حاصل کرنے کی کاروائی پوری کر دی۔ اگلے دو دن میں غلام علی کے اکاؤنٹ میں پورے پیسے ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ وہ ولی محمد اورسیار کو دعائیں دے رہا تھا۔ غلام علی نے تیس ہزار کا قرض ادا کیا اور باقی رقم سے اپنے بیمار باپ اور بیٹی کے علاج اور معالجہ کا عمل شروع کیا۔
سیار چند دنوں سے بے چین رہنے لگا۔ اس کی نیند کوسوں دور بھاگ چکی تھی۔ وہ رات بھر جاگتا رہتا اور اس کے دل و دماغ پر غلام علی کی بیٹی کا وہ بیکار ہاتھ بری طرح مسلط ہو چکا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ غلام علی کا یہ واقعہ بھی چند دنوں بعد زمین بوس ہو جائے گا لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہوا۔ سیار مضطرب اور پریشان رہنے لگا۔ وہ اپنے دفتر، اپنے گھر گویا ہر جگہ غلام علی کی بیٹی کے خیالوں میں گرفتار رہتا۔
آج صبح بھی سیار اضطرابی حالت میں اپنے دفتر کی جانب جا رہا تھا کہ اچانک اس کے پڑوسی کا فون آیا:
” سیار صاحب غضب ہو گیا۔۔ آپ کے گھر میں گیس سلنڈر پھٹ گیا۔ آپ فوراً ہسپتال کا رخ کیجئے”
سیار کی آنکھوں کے سامنے گہرا اندھیرا چھا گیا۔
کہرآلود فضا میں غلام علی کی بیٹی کی دھندلی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھوں میں پانی کا گلاس تھا۔ سیار نے سیدھے ہسپتال کا رخ کیا اس کی بیوی اور اس کی ننھی سی بیٹی ایمرجنسی وارڈ میں زیر علاج تھے۔ سیار وارڈ کے باہر انتظار کر رہا تھا دو تین گھنٹے بعد ایک ڈاکٹر صاحب آیا اور عاجزی سے کہنے لگا:
” سیار صاحب اللہ کا شکر ہے کہ آپ کی بیوی اور بیٹی کو ہم بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ بہرحال آپ کی بیوی اور بیٹی بچ تو گئے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کی بیوی کا ایک ہاتھ اور آپ کی بیٹی کا ایک ہاتھ اس قدر جھلس گئے تھے کہ ان کو کاٹنا پڑا۔ اللہ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے”
سیار یہ خبر سن کر دم بخود رہ گیا۔ اس کے چہرے سے غم و پریشانی کے تاثرات ہویدا ہوئے۔ وہ بری طرح کانپ رہا تھا۔ اس کا سارا جسم ٹھنڈے پسینے میں شرابور تھا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے غلام علی کی بیٹی کا کھلتا ہوا چہرہ نمودار ہوا۔ وہ ہنس رہی تھی۔جذام کی وجہ سے اسکا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔۔ اسکے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا اور سیار سے مخاطب تھی:
” سیار چاچو۔۔۔آپ کو بہت پیاس لگی ہوگی۔۔ یہ لو پانی کا گلاس اور اپنی پیاس کو بجھاؤ۔۔۔۔۔۔۔”
Leave a Reply