تازہ ترین / Latest
  Wednesday, January 8th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

کمبل اک نشہ

Articles , Snippets , / Tuesday, January 7th, 2025

مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر
اگر ائرپورٹ پر کسی رشتہ دار یا دوست کے استقبال کے لئے جانے کا اتفاق ہوا ہو تواہلِ عقل سامان والی ٹرالی سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ فلائٹ یورپ وامریکہ آمدنی والے ممالک سے آمدن ہے کہ خلیجی ممالک سے۔فرق معلوم کرنے کا آسان اور سیدھا سادھا سا فارمولا یہ ہے کہ اگر سمان wrap کے ”عبایا“میں لپٹا ہوا ہو تو عرب نہیں بلکہ ارب پتیوں کے دیس یعنی کینیڈا،امریکہ اور یورپ سے لیکن معکوس بالا میں اگر سامان”بے لباس“rape زدہ ہو تو سمجھ جائیں ارب پتی نہیں بلکہ ”کثیر پتنیوں“کے دیس سے آمدہ ہے۔مذکور دو علاقوں سے تشریف لانے والے مسافروں میں فرق ”کمبل“کا ہوتا ہے۔خلیجی ممالک سے تشریف لانے والے مسافر حضرات کمبل کو سامان کے قطب مینار کے آؒخری”کنگرہ“کی طرح سجائے ایسے آتے ہیں جیسے پیر صاحب کو مسند پہ تین گدیاں رکھ کر بٹھایا گیا ہو۔کمبل لانا خلیجی ممالک کے اوورسیز کا ”قومی تحفہ“بن چکا ہے۔ہر سال کمبل ایسے لاتے ہیں جیسے درگاہ پر چادر تاکہ باعث صد افتخار وثواب رہے۔
یہ مشہور ومعروف ضرب المثل تو ہر خاص وعام نے سن رکھی ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔چھوڑنے سے یاد آیا ہمارے سیاستدان تو بنا کمبل کے بھی لمبی لمبی ہی چھوڑنے میں ماہر ومشاق ہیں وہ چھوٹی بھی چھوڑیں تو تو ان کے اردگرد کے چھوٹے لوگ اسے کھینچ کھینچ کر لمبی کر لیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کمبل اک نشہ ہے اور پاکستان میں دسمبر تا فروری سب نشے میں ہوتے ہیں۔اگر آپ ”خاں صاحب“ ہیں تو پھر یہ نشہ اپریل تک طوالت اختیار کر سکتا ہے۔ویسے بھی ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ یا تو کمبل میں ہوتے ہیں یا نشہ میں۔ان کا تو فرمانِ عالی شان ہے کہ اپریل سے قبل جو کمبل چھوڑتا ہے ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں۔یہ لوگ سردی میں کمبل اور شادی میں ”ویل“پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے۔موسم گرما ہو کہ سرما خلیجی ریاستیں ”مکمل نشے“میں ہوتی ہیں میرا مطلب سارا سال ہی کمبل میں۔ایسے لوگوں پر تو 50 ڈگری میں کمبل نہ اوڑھنے پر بھی ڈگری ہو سکتی ہے۔کہتے ہیں گرمی کے موسم میں فل اے سی چلا کر کمبل اوڑھنے میں جو مزہ ہے وہ ”دو،دو“ہو کر سونے میں کہاں۔
عنفوانِ شباب یا زمانہ طالب علمی میں مجھے یاد ہے ہمارے شہر میں جب پیار کا موسم یعنی سرما کا موسم اترتا تھا تو شہر سے باہر ایک بابا جی کے سالانہ عرس کو موقع پر ”منورنجن“کے لئے لکی ایرانی سرکس،ورائٹی شوز اور ہانگ کانگ کے شعلوں،منیلا کی بجلیوں کے ساتھ موت کے کنویں بھی لگا کرتے تھے جو اس دور میں نوجوانوں کے لئے واقعی ”موت“ سے کچھ کم نہیں تھے۔ان کنووں کے سٹیج کی زینت کئی she male زینت امان بن کر نوجوان نسل کو جائے پناہ اور کچھ امیرزادوں کو اپنی ”پناہ“میں لے لیتے تھے۔ویسے شی میل کا ڈانس اور پٹھان کی زبان میں قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں کبھی نہیں بدلتے۔
انہیں دنوں میرے ایک دوست کو she male سے ایسا عشق ہوا کہ اک آگ کا دریا اور تیر کے جانے کے مصداق جاناں سے ملنے کی راہ نکالی تو دورانِ ملاقات اس شی میل نے اپنے مردانہ ہاتھوں سے ایسے جکڑ بند میں جکڑا کہ آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔اب ہم جو باہر چوکیداری کے فرائض منصبی ادا کر رہے تھے دوست کو مصیبت میں دیکھ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ نہیں چھوڑتی تو تم دامن چھڑا کے بھاگ آؤ۔دور کہیں پہاڑ کے ملبے تلے دبے منہنی چوہے کی سی آواز آئی کہ
میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑرہا۔تب سمجھ آیا کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے۔
اس ضرب المثل کے پس منظر میں بس اتنا ہی ہے کہ ایک دریا کنارے چہل قدمی کرتے ایک کنجوس شخص کو دریا میں کوئی بہتی شے نظر آئی تو اس نیکمبل خیال کرتے ہوئے آؤ دیکھا نا تاؤ بس دریا میں چھلانگ لگا دی۔وائے ناکامی قسمت کہ وہ کمبل کی بجائے ایک کھاتا پیتا تگڑی نسل کا سیاسی ریچھ نکلا جس نے ایسا سیاسی جکڑ بند لگایا تو کنارے پر کھڑے لوگوں نے چلانا شروع کردیا کہ دیکھو اگر کمبل تمہیں نہیں چھوڑ رہا تو تم جان بچاؤ۔جواب ملا کہ
میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔
پاکستانی عوام اورسیاستدان کچھ اسی ضرب المثلج کے جکڑ بند میں جکڑے ہوئے ہیں تاحال اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ریچھ کون ہے،جس کو پتہ ہے بھی تو وہ یہ جان کر کچھ نہیں بولتا کہ کہیں بولتی ہی بند نا کرواد ی جائے۔کہ ہر کوئی حسب طاقت فرعون ہے۔
80 کی دہائی میں خلیجی ریاستوں سے آنے والے ہر شخص کے پاس ٹیپ ریکارڈراور کمبل ضرور ہوتا تھا،زمانہ نے کروٹ لی اور دہائی نے دہائی دیتے ہوئے انگڑائی لے کر 90 میں داخل ہوئی تو ٹیپ ڑیکارڈر کے ساتھ وی سی آر کا اضافہ ہوگیا۔اضافہ سے یاد آیا کہ خلیج سے آنے والے کچھ اور کرین نا کریں ہر چھٹی میں ایک کمبل اور بچے کا اضافہ ضرور کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کا زمانہ آیا تو ٹیپ ریکارڈر،وی سی آر کی جگہ آئی فون نے لے لی اور تو اور وہ لوگ بھی باہر والوں سے آئی فون کی فرمائش کر دیتے ہین جن کی اپنی”eye“ بصارت سے محروم ہو چکی ہو۔تاہم کمبل کا ثانی آج بھی کوئی نہیں۔
گلف سے لوگ کمبل ایسے لاتے ہیں جیسے عمرہ زائرین زمزم اور کھجور۔کہتے ہیں کمبل لانا کار ثواب سے کم نہیں۔میرا محلہ دار سعودیہ سے ہر سال چکر لگانے پاکستان آجاتا ایک روز میں نے ازراہ تفنن پوچھا کہ یار کچھ بچایا بھی ہے یا ”آنیاں جانیاں“ہی ہیں۔مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔
دس کمبل اور گیارہ بچے
میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ یار خدا کا خوف کرو اپنا نہیں تو کم از کم بیوی کا ہی خیال کرو
پٹاخ سے جواب ملا کہ اسی کا خیال کرکے ہی ایک سال بعد ّتا ہوں وگرنہ چھٹی تو چھ ماہ بعد ہی due ہو جاتی ہے۔
اب آپ ہی بتائیں کہ نشہ میں کون ہے کمبل والے یا بنا کمبل


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International