عامرمُعانؔ
بدھو میاں کمرے میں داخل ہوتے ہی گویا ہوئے ، چلیں آج ہم آپ کو چائے پر ایک قول سناتے ہیں ۔ ہم نے کہا جی ارشاد ، بدھو میاں نے فوراً سے پیشتر قول سنانا شروع کیا کہ مشہور شاعر جون ایلیا فرماتے ہیں کہ ” چائے کا ایک کپ دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کا بہانہ ہوتا ہے ، اور یہی بہانہ زندگی کا حقیقی لطف ہے” ۔ ہم نے واہ واہ کرنے کیساتھ ساتھ بدھو میاں کو گھورتے ہوئے کہا ، کہیں چائے کی طلب پر تو ہماری ٹانگ نہیں کھینچی جا رہی ۔ بدھو میاں یکدم کہنے لگے ، بھئی آپ اور ہم تو ہیں کوئٹہ کے واسی ، اور کوئٹہ والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ چائے ہمارے ہاں ہماری ثقافت ، تہذیب اور تاریخ کا ایک اہم جزو ہے۔ ہماری محفلوں میں چائے نہ ہونا ایسے ہی ہے جیسے چولہے پر ہانڈی رکھی ہو اور آگ نہ جلی ہو ، ہانڈی پھر پکے گی کیسے ؟ ، یوں ہی بِنا چائے ہماری محفل سجے گی کیسے ؟ اور اگر سج بھی جائے تو بھی وہ بے کیف و بے رنگ سی ہی رہتی ہے ۔ ہماری دعوتوں میں اگر دنیا جہان کے بہترین کھانے کھلا چکنے کے بعد چائے سے تواضع نہ کی جائے تو ایک گِلہ ہمیشہ کے لئے میزبان کا پیچھا کرتا ہے کہ جناب مزہ نہیں آیا ، چائے تو تھی ہی نہیں۔ ہم نے کہا بدھو میاں اب اتنا بھی سنانے کی ضرورت نہیں ہے ، آرام سے بیٹھ جائیں آپ کو چائے مل جائے گی کہ ہم بھی کوئٹہ والے ہی ہیں بِنا چائے کے جانے بھی نہیں دیں گے ، کیونکہ آپ بھول گئے اگر مہمان بِنا چائے پئے چلا جائے تو پھر میزبان بھی گِلہ رکھتے ہیں کہ اگر آپ ملنے آئے تھے تو بِنا چائے پئے چلے کیسے گئے ۔ ہم نے کہا ہم تو آپ کو صرف چائے پلا رہے ہیں مگر یاد رہے کچھ منچلوں نے رشوت کا نام چائے پانی رکھ دیا ہے ، اُس سے ضرور احتیاط کیجئے گا ۔ اسی دوران ہم نے ہنستے ہوئے بدھو میاں سے پوچھا آپ چائے چائے تو کر رہے ہیں کچھ تاریخ کا بھی پتہ ہے کہ آخر چائے کا آغاز کیسے ہوا ، تو کہنے لگے ہمیں تو کوئٹہ کی چائے کی تاریخ کا پتہ ہے کہ کیسے چھوٹی چھوٹی رنگین خوبصورت پیالیوں سے یہ سفر شروع ہو کر بڑے بڑے خوش نما پیالوں تک پہنچ چکا ہے ، اور ساتھ ہی ایک چائینیز فلسفی لاؤ ژی کا قول بھی یاد ہے کہ ” چائے روح کے سکون کے لئے ایک تحفہ ہے جو اندرونی سکون فراہم کرتی ہے ” ۔ ہم نے کہا آپ کو چائے کی تاریخ کا علم نہ بھی ہو ، مگر چائینیز فلسفی کا قول ازبر ہے اور بر وقت سنا بھی دیا ہے ، تو سنئیے ، چائے کی اچانک ابتداء بھی چائنا سے ہی ہوئی تھی ، اچانک یوں کہ 2737 قبل مسیح میں وہاں کے بادشاہ شین نونگ کے سامنے حادثاتی طور پر گرم پانی میں کچھ پتیاں گر گئی تھیں ، اور وہ پانی پینے پر بادشاہ کو وہ پانی خوشبودار اور ذائقہ دار لگا اور راحت بھی محسوس ہوئی ، سو یوں ان پتیوں سے تیار یہ مشروب دوا کے طور پر بنایا جانے لگا تاکہ مریض کو مرض میں خاطر خواہ راحت مل جائے ۔ لو جی بدھو میاں تو شین فنگ کو دعا ہی دینے لگ گئے کہ جس کی بدولت چائے سے انسان کا تعارف شروع ہوا اور بدھو میاں کی راحت کا انتظام ہوا ۔ اب اصل بات بدھو میاں جاننے کو بے چین تھے کہ آخر روز مرہ کے مشروب کے طور پر کیسے اس کی شروعات ہوئی۔ ہم نے بتانا شروع کیا کہ یوں ہی کچھ عرصہ بیتا اس کے بعد اس کو بدھ مت کے پیروکاروں نے اپنی عبادت کے دوران استعمال کرنا شروع کر دیا ، کیونکہ یہ ان کے لئے ذہنی سکون اور توجہ مرکوز کرنے میں معاؤن ثابت ہونے لگی تھی ۔ آٹھویں صدی میں یہ چائے کی پتیاں چائنا سے جاپان پہنچ گئیں ، جہاں ان سے تیار چائے کو خصوصی تقاریب میں مہمانوں کی تواضع کے طور پر استعمال کئے جانے لگا۔ سترھویں صدی میں پرتگالی اور ڈچ تاجر جو چائنا اور جاپان سے تجارت کرتے تھے ، انہوں نے ان پتیوں کو یورپ تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ جلد ہی یورپ میں چائے نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ برطانوی اشرافیہ میں چائے پینا ایک فیشن اور پھر ثقافت کا حصہ بن گیا ۔ انگریز اپنے ساتھ یہ چائے لے کر برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوئے ، آسام اور دارجلنگ میں چائے کی اعلیٰ درجے کی کاشت شروع کی، اور پھر برطانوی راج میں ہی چائے کو بر صغیر میں مشہور کرنے کی مہم چلائی گئی، شروعات میں میلوں ٹھیلوں میں چائے مفت پیش کی جاتی تھی تاکہ اس کا ذائقہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے ، جس کا نتیجہ ہے کہ آج سب سے زیادہ چائے پاک و ہند میں ہی پی جاتی ہے ۔ اور ایک اندازے کے مطابق صرف پچھلے سال پاکستان میں 600 ملین ڈالر چائے کی پتیاں منگوانے پر خرچ ہوئے ۔ ساتھ ساتھ اس کے مختلف ذائقے متعارف کروائے گئے، جن میں دودھ والی چائے، قہوہ چائے جسے کوئٹہ میں سلیمانی چائے بھی کہا جاتا ہے ، سبز چائے، الائچی و ادرک والی چائے ، بدھو میاں نے درمیان میں ہی جملہ اچک لیا اور فوراً تنک کر بولے کوئٹہ کی مشہور ترخہ، کڑک اور دودھ پتی چائے۔ ہم نے ہنستے ہوئے کہا بالکل بالکل یہ بھی درست کہا۔ ہم نے بدھو میاں سے کہا ، آپ کی تو چائے پر دو اقوال سنا کر ہی بس ہو گئی ، ہم تو سمجھے تھے بہت سارے اقوال رٹ کر آئے ہیں ۔ بدھو میاں نے جھٹ کہا تو پھر سنتے جائیے کچھ مزید اقوال۔ فاطمہ جناح فرماتی ہیں ” چائے کاایک کپ ذہنی تھکن مٹا کر نئے عزم کی شروعات کرتا ہے” ، جان کیٹس کہتے ہیں” چائے اور کتاب کے ساتھ ایک آرام دہ لمحہ زندگی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ” ، اور جارج آرول کہتے ہیں ” چائے پینے کا صحیح لطف ہے جب آپ اسے صحیح طریقے سے بنائیں، یہ زندگی کی خوشیوں میں سے ایک ہے” ۔
ہم نے کہا بس بدھو میاں بس، اب چائے آ گئی ہے اسے کوئٹہ کی سردی سے لطف اندوز ہونے کے لئے جلد سے جلد پی لیجئے کہ کوئٹہ میں چائے کا ایک مصرف سردی کے خوبصورت لمحات یادگار بنانا بھی ہے ، اور دوستوں کی محافل تو یہ جاندار بناتی ہی ہے ، اور ان میں روح جگانے میں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ بدھو میاں فوراً کہنے لگے چائے اور کوئٹہ تو یوں بھی لازم ملزوم ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے طول و ارض میں جگہ جگہ چائے کے ہوٹلوں پر جگمگاتا کوئٹہ چائے کا نام کوئٹہ والوں کی چائے سے محبت اور اعلیٰ ذائقے کی پہچان بن چکی ہے۔ چائے کا دور ختم ہوتے دیکھ بدھو میاں کہنے لگے ہم ایک کپ پر بس نہیں کریں گے آپ نے پوری تاریخ بتا دی مگر یہ نہیں بتایا کہ چائے کے فائدے کتنے ہیں۔ ہم نے کہا چلیں یہ بھی سن لیں ، عام طور پر چائے کے فوائد میں ہے کہ یہ جسم کو تازگی اور سکون فراہم کرتی ہے ، دماغ چاک و چوبند رکھتی ہے، قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے، سبز چائے وزن کم کرنے اور جلد بہتر بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے، غرض اس کے بہت سے فوائد ہیں مگر سب سے بڑا فائدہ یہ ایک ایسا مشروب ہے جو ثقافتی رابطے میں بہت اہم ہے اور مزید یہ کہ چائے لوگوں کو قریب لانے اور دوست بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ بدھو میاں اب رٹے ہوئے کچھ مزید اقوال سنانے کے موڈ میں ہیں ، لیکن ہم بھاگ رہے ہیں کہ چائے کے بہت سے فائدے ہیں لیکن ایک نقصان یہ ہے کہ چائے آپ کو اپنا گرویدہ بنا کر تادیر لطف لینے کا کہتی ہے ، اور اس مصروف دور میں اتنا وقت دینا کہاں ممکن ، لیکن پھر بھی کوئٹہ کے واسیوں نے چائے سے محبت کا ثبوت ہر دن میں اپنے وقت کا کچھ حصہ چائے سے لطف اندوز ہونے کے لئے مختص کر کے دیا ہے ، جہاں چائے کے کپ پر محبت اور خلوص کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ اور چائے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کا اٹوٹ ساتھ ہیں۔
Leave a Reply