Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کوئٹہ کا ایک چمکتا ستارہ ڈوب گیا ۔۔۔ انتقال ڈاکٹر نور یٰسین

Articles , Snippets , / Thursday, January 30th, 2025

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت تھا جب کوئٹہ کے شہری دورِ جدید کے جدید سہولیات سے آراستہ اسپتالوں سے تقریباً نابلد تھے ۔ ایک سول اسپتال سرکار کی معیت میں کام کر رہا تھا اور دوسرا کوئٹہ کینٹ میں موجود جنرل ہیڈ کوارٹر اسپتال تھا ، ایک ریلوے کا اسپتال بھی تھا جہاں عام مریض کم ہی علاج کے لئے جایا کرتے تھے ۔ ان کے علاوہ کسی بڑے اسپتال کا وجود کوئٹہ شہر میں دور دور تک موجود نہیں تھا ۔ اُس دور میں جو نوے کی دہائی تک پوری آب و تاب سے رہا ، کوئٹہ شہر میں گنتی کے چند ڈاکٹرز تھے جو جنرل پریکٹیشنز (جی پی ڈاکٹرز ) کے طور پر اپنے پرائیویٹ کلینکس چلا رہے تھے ۔ یہاں پرائیویٹ پڑھ کر قارئین ، یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ وہ موجودہ طرز کے پرائیویٹ اسپتالوں جیسے تھے جہاں مریضوں کو مریض کم اور کسٹمر زیادہ سمجھا جاتا ہے ۔ کوئٹہ کی تمام آبادی اس وقت چند لاکھ تک ہی محدود تھی ، یعنی اب کی طرح پہلے اتنے زیادہ نفوس پر مشتمل نہیں تھی ۔ تب زیادہ تر مریض انہی ڈاکٹرز کے مرہون منت ہوا کرتے تھے ، جو ہر بیماری کا علاج کر کے ان کو تندرست رکھنے میں نہایت مہارت رکھتے تھے ۔ ان ڈاکٹرز میں چند نمایاں نام ، ڈاکٹر حقی ، ڈاکٹر حامد مقصود ، ڈاکٹر ایوب ، ڈاکٹر اکرم ، ڈاکٹر عبدالجبار ، ڈاکٹر کرار حسین زیدی اور ڈاکٹر نور یٰسین کے تھے ۔ ان تمام ڈاکٹرز کی پیشہ وارانہ خصوصیات کے علاؤہ سب سے بڑی خصوصیات میں شامل تھا مریضوں سے دوستانہ تعلقات قائم رکھنا ۔ مریض یوں ان کے کلینک میں داخل ہوتے جیسے اپنے کسی دوست کی بیٹھک میں گپ شپ کے لئے جا رہے ہوں ، اور یہ ڈاکٹرز بھی نہایت شفقت اور محبت سے ان سے گپ شپ کے انداز میں بیماری پوچھتے اور کلینک کے ہی ایک کونے میں موجود ڈسپنسری کے لئے نسخہ لکھ دیا جاتا ، جہاں ڈسپینسر کلینک میں ہی تیار دوائی پڑیوں میں باندھ کر اور ایک شیشی میں مکسچر بھر کر دے دیتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحبان کو کبھی دوا دینے کے بعد کسی مریض نے شائد ہی کہتے سنا ہو کہ ایک ہفتے کے بعد دوبارہ چیک اپ کروانے آ جائیے گا ۔ ڈاکٹرز کی طرح مریضوں کو بھی یقین ہوتا تھا کہ وہ صرف چند خوراکوں سے ہی تندرست ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر نور یٰسین کا کلینک ابھی تک انہی روایات کا امین ہے ۔ ڈاکٹر صاحب صرف مریض سمجھ کر علاج نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لہجے سے ایک خلوص جھلکتا تھا ۔ کوئٹہ میں مریض کا آدھا علاج تو ان ڈاکٹر صاحبان کی محبت کر دیتی تھی اور آدھا علاج وہ چند پڑیاں اور مکسچر کر دیتے تھے جو کلینکس سے نہایت کم قیمت پر مل جاتا تھا ۔ مہنگی دوائیوں کے نام تو عام مریضوں کو معلوم تک نہ تھے ۔ یہ کوئٹہ کے سنہرے دور کا ذکر ہے ، پھر کوئٹہ میں جدید طرز کے اسپتالوں نے اپنا وجود مضبوط کرنا شروع کیا اور ان ڈاکٹرز کے وجود بوجوہ بزرگی کمزور ہونے لگے ۔ ان ڈاکٹرز کے انتقال کی خبروں سے وہ کلینک ویران ہونے لگے جہاں ایک وقت میں مریضوں کو صرف ڈاکٹرز کی گفتگو سے آرام و سکون کی دوا مل جایا کرتی تھی ، اور یوں پھر چند ہی ڈاکٹرز اس دور کی یادگار کو قائم رکھے ہوئے باقی رہ گئے ۔ جدید اسپتالوں کی بھرمار نے ان کلینکس کی رونق مانند کرنے کی جتنی بھی کوشش کی ہو لیکن عام مریضوں کےلئے جدید اسپتال سے پہلے ان کلینکس میں ڈاکٹرز سے رجوع کرنا اب بھی ضروری ہی ہے ۔ چند دن پہلے 27 جنوری کو یہ اندوہناک خبر کوئٹہ سوشل میڈیا پر پھیل گئی کہ جناب ڈاکٹر نور یٰسین صاحب 88 سال کی عمر میں کوئٹہ کے مریضوں سے اپنا رشتہ توڑ کر ہمیشہ کے لئے راہی ملک عدم ہو گئے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کی اچانک وفات پر اہلِ کوئٹہ کافی غمگین نظر آئے ، اور جنازے میں شامل بڑی تعداد نے اپنی محبت کا آخری سلام ڈاکٹر صاحب کے اس جذبے کو پیش کیا جو انہوں نے کوئٹہ سے محبت کے تحت مرتے دم تک قائم رکھا ۔ ڈاکٹر صاحب ایک بہت علمی شخصیت بھی تھے ۔ ان کی کافی تحریریں ملک کے جید اخبارات کے صفحات کی زینت بنتی رہی ہیں ۔ خاص طور پر 1935 کے کوئٹہ زلزلے کے حوالے سے ۔ ڈاکٹر صاحب کی اس واقعہ کی یاد میں تحریر ہر سال مختلف اخبارات میں تسلسل سے شائع ہوا کرتی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہمدرد دل رکھنے والے انسان تھے اور ان کے کلینک کی دیواریں ایسے بہت سے مریضوں سے واقف ہیں جن کا علاج ڈاکٹر صاحب فی سبیل اللہ کیا کرتے تھے یا جن کا بہت کم پیسوں میں علاج کر دیا کرتے تھے ۔ کوئٹہ کے خوبصورت ماضی میں یہ سارے کلینک ہمیشہ ستاروں کی طرح جگمگاتے رہیں گے ۔ ڈاکٹر نور یٰسین صاحب کا کلینک تو اسی آبو تاب سے جاری ہے جہاں ان کی جگہ ان کے فرزند ڈاکٹر وسیم احمد کلینک کو اسی جانفشانی ، محبت اور خدا ترسی سے رواں رکھے ہوئے ہیں ۔ ہماری دعا ہےکہ اللہ کوئٹہ کے اس عظیم فرزند کی مغفرت فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ـ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International