آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
اتوار سپیده دم اپنے موبائل فون پر ایک مسڈ کال دیکھی، جناب عدیل اکبر کا نام تھا – میں اور عدیل بھائی سحر خیز اور ایک دوسرے کے معمول سے واقف ہیں، اس لیے صبح فون کرنا کچھ عجیب نہ تھا، لیکن نہ جانے کیوں میرا ماتھا ٹھنکا، جگر کو پتھر کر، دھڑکتے دل کا ساتھ واپس فون کیا،
بولے، آپ نے خبر سنی؟
کونسی خبر؟ میں نے پوچھا-
فرمانے لگے، فرتاش سید نہیں رہے-
جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا- مبتلائے حیرت، دل زدہ، مزید استفسار کرنا چاہا پہ آواز نےساتھ نہ دیا-
رُودادِ غمِ الفت اُن سے، ہم کیا کہتے، کیوں کر کہتے
اِک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے
فرتاش صاحب سے پہلی ملاقات یہاں دوحہ میں پاک شمع اسکول میں ہوئی، میں گیارویں کا طالب علم تھا، اپنے مصرعے کی صورت کہ
“چشم کشیدہ ! دیکھ ادھر ، میں کہ بہت جوان تھا”
فرتاش صاحب اسقدر جوان تھے کہ ہم ان کو اپنا ہم مکتب سمجھ بیٹھے- یہ ١٩٩٢ کی بات ہے- اس کے بیس پچیس برس بعد جب کبھی کسی ادبی محفل میں میں نے ان کا تعارف اپنے اردو کے استاد کی حیثیت سے کروایا تو مخاطب کو، فرتاش صاحب کو دیکھ کر جو ہنوز آئینہ سیما تھے، شک گزرا- میں شرمسار ہوا، اور فرتاش صاحب مزید کھل اٹھے-
جب احباب میری اردو کے حوالے سے پذیرائی کرتے تو فرتاش صاحب کی آنکھیں چمک اٹھتیں- میں ازراہ تفنن کہتا کہ اگر میری بات میں کوئی بات ہے تو وہ لیاقت ذاتی ہے اور جو خامی ہے اس کی ساری ذمہ داری میرے استاد پر ہے- سب کی نگاہیں فرتاش صاحب پر جم جاتیں، اور ایک معصوم مسکراہٹ ان کے چہرے کو مزید خوش رنگ بنا دیتی-
قند پارس سے لذیذ زبان اردو اور اس سے بھی لذیذ اردو شاعری اور پھر فرتاش سید جیسا استاد ، جس کی شخصیت شہد و شکر میں گندھی ، جس کی شیریں لبی کے طیور بھی خریدار ، ہمارے لیے اردو قند مکرر بن گئی-
خریدار محبت ہی سزاوار محبت ہوتا ہے- بقول فیض، جز اس کے اور کو سمجھانا مشکل، میرے دوست، ہم مکتب، فرتاش صاحب کے تلمیذ خاص اور محبوب دوست، میرے شریک غم ظہیر علوی، ” ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے” سے شام کو امریکہ میں ٹیلیفون پر بات ہوئی- غم فرتاش کی تاب لانے کی جی کو طاقت کچھ یوں ملی-
قلق اور دل کا سوا ہوگیا
دلاسا تمھارا بلا ہوگیا
سماں کل کا رہ رہ کے آتا ہے یاد
ابھی کیا تھا اور کیا سے کیا ہو گیا
چند دن قبل ہی فرتاش صاحب سے ٹیلیفون پر گھنٹوں پر محیط گفتگو ہوئی، ان کی نئی کتاب کی باتیں، ان کی یونیورسٹی کی باتیں، لاہور کی باتیں، دوحہ کی باتیں، میرے پاکستان آنے پر ملاقات کی باتیں، میر و غالب کی باتیں، شعر کی باتیں، شاعروں کی باتیں، رنگوں کی باتیں، زخموں کی باتیں-
ان سب باتوں میں، فرتاش صاحب، آپ سنتے ہیں؟ مرنے کی کوئی بات نہ ہوئی تھی- آپ تو دوحہ آنے کا قصد کیے ہوئے تھے،
تم پھر نہ آ سکو گے بتانا تو تھا مجھے
تم دور جا کے بس گئے میں ڈھونڈھتا پھرا
شام کو عدیل بھائی سے بات ہوئی، فرمانے لگے فرتاش سید مرحوم کی یاد میں ایک تقریب، بہ غرض خراج تحسین و عقیدت، کا قصد ہے- کہاں آپ کے ساتھ شام اور کہاں آپ کی یاد میں شام- آہ، فرتاش سید-
پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا
فرتاش صاحب کا گل چہرہ رشک بہار تھا تو ان کا شگفتہ مزاج پرتو صبح تھا- ان کی شخصیت میں بچوں کی سی معصومیت تھی- بذلہ سنجی، زندہ دلی، یہ تراکیب تو بنیں ہی ان کے لیے تھیں- میں نے ان کو کبھی رنجیدہ نہیں دیکھا- یوں لگتا تھا جیسے ان کو کوئی پریشانی، کوئی غم ہے ہی نہیں- اصل بات یہ تھی کہ فرتاش صاحب کو خوش رہنے کا ڈھنگ آتا تھا- ورنہ کون ہے جس کی یہاں بے غم کٹتی ہے-
اگر “ہمہ وقت ہشاش بشاش” کوئی ترکیب ہوتی تو اس کی شخصی صورت فرتاش سید ہوتے-
تعلق داری اور پیمان الفت کو قائم رکھنا، فرتاش صاحب پر ختم تھا- بانی مجلس ملک مصیب الرحمن کو گزرے مدت ہوئی، لیکن آپ نے ان کو اپنی محفلوں میں، اپنے کام میں، اپنی زندگی کا حصہ بنا کر زندہ رکھا- ایسا کون کرتا ہے؟ یہ تو وہی کر سکتا ہے جس کو صلے کی کوئی پروا نہیں۔
شوخی مزاح اور حاضر جوابی آپ کی شخصیت کا حصہ تھیں، ایکبار مجھ سے کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ مصیب الرحمن مرحوم کے حوالے سے ایک جشن کا اہتمام کروں، میں جانے کس عالم میں تھا، کہا کہ “سر، آپ کو ان سے محبت ہے تو ان کے ایصال ثواب کی کوئی محفل رکھ لیجیے-”
فرمانے لگے،” آپ کو غالب سے محبت ہے، آپ غالب فہمی کی نشستیں کیوں رکھتے ہیں، تعزیتی جلسہ کیوں منعقد نہیں کرتے؟” بات تو سچ تھی-
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
ایکبار ہم چار پرانے اسکول کے زمانے کے دوست، فرتاش صاحب کے ساتھ گئے دنوں کی یاد تازہ کر رہے تھے کہ اچانک ہم میں سے کسی نے یہ سوال داغ دیا کہ “سر، آپ کی شاعری اور آپ کی شخصیت میں کوئی مطابقت نہیں، آپ کے شعروں میں گہرائی اور گیرائی، فلسفہ اور تہہ داری ایسی ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، قیامت روانی اور غضب پہلو داری، لیکن آپ کی گفتگو میں وہ سب ہمیں نظر نہیں آتا-”
مجال ان کی وضع میں ذرا سی بھی سلوٹ آئی ہو، الٹا، فرتاش صاحب یہ سن بہت محظوظ ہوئے، اور ہنس کر فرمانے لگے “آپ نے پا لیا، بالکل ایسا ہی ہے-”
ہم نے پوچھا “اس کی وجہ کیا ہے؟”
پوری سنجیدگی کی ساتھ بولے “آپ، اس کی وجہ آپ ہیں”
“وہ کیسے؟” ہم حیران ہو گئے-
بولے “میرے شعر خواص کے لیے ہیں اور کچھ عوام کے لیے بھی، اس لیے میں ان میں خاص رنگ لے کر آتا ہوں جو کہیں خیال آفرینی کی بلندی چھوتا ہے اور کہیں کہیں میں عوامی رنگ بھی بھر دیتا ہوں، پہ آپ بچوں سے جب ملتا ہوں تو آپ کی طرح بچہ بن جاتا ہوں- جب آپ کو میری گفتگو میں گہرائی دکھائی نہ دے، لطافت ہی لطافت ہو، تو جان لیجیے اس کا اہتمام میں نے خاص طور پر آپ کے لیے کیا ہے-”
آپ خنجر بکف، ہم نہتے- اپنا سا منہ لے کر رہ گئے-
کہتے ہیں کہ مشہور سیاستدان اور شاعر نوابزادہ نصراللہ خان بیمار پڑ گئے- ہسپتال میں داخل ہوئے تو ان کے معالج نے آپ سے شعر سنانے کی فرمائش کی- نوابزادہ صاحب نے چند اوٹ پٹانگ سے اشعار سنا دیے-
ڈاکٹر بہت حیران ہوا، بولا، ہم نے تو سنا تھا کہ آپ بہت عمدہ شاعر ہیں اور آپ کا شعری ذوق بھی بہت اعلیٰ ہے، لیکن یہ آپ نے ہم کو کیا سنا دیا؟
نوابزادہ صاحب نے کہا کہ ڈاکٹروں کو میں ایسے ہی اشعار سناتا ہوں-
فرتاش صاحب کا ایک شعر ہے جس کی وہ گویا تصویر تھے-
صف ماتم پہ جو ہم ناچنے گانے لگ جائیں
گردش وقت! ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
یہ بالکل حقیقت ہے آپ نے گردش وقت کو آڑے لیا- فرتاش صاحب کا یہ انداز ان کے خوبصورت دل، ترو تازہ دماغ، اور روشن چہرہ کی وجہ تھا-
فرتاش صاحب مجھے اہتمام کے ساتھ “ڈاکٹر صاحب” کہہ کر مخاطب کرتے تھے، کبھی بحث کے موڈ میں ہوتے تو صرف “ڈاکٹر” کہتے – میں نے عرض کیا کہ آپ میرے استاد ہے اور میرے دوست بھی، اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں، آپ مجھے میرے پہلے نام کے ساتھ پکارا کیجیے- کہنے لگا، اس کی ایک وجہ ہے، میں عنقریب اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے والا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ تب مجھے “ڈاکٹر” کہہ کر مخاطب کریں-
میں نے عرض کیا “سر، تب تو ساری دنیا آپ کو ڈاکٹر کہے گی-”
بولے “دنیا کا کہنا اور آپ کی کہنا دو الگ باتیں ہیں، آپ کہاں کسی کو کچھ مانتے ہیں-“
ڈاکٹر فرتاش سید صاحب، میں آپ کو مان گیا- جی گھٹا جاتا ہے، آپ ڈھونڈے ملتے نہیں کہ میں آپ مکرر “ڈاکٹر” کہوں-
وہ تو نہیں کہ دیکھیں اس آئینہ رو کو صبح
ہم کس امید پر شب غم کو سحر کریں
ڈاکٹر فیصل حنیف
٧ دسمبر ٢٠٢٤، دوحہ، قطر
Leave a Reply