Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کون سماج میں انسان کو عزت دے گا

Articles , Snippets , / Friday, February 14th, 2025

بڑی حیرت سے میں اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو کھول کھول کے ارد گرد، اوپر نیچے، چاروں طرف دیکھتی ہوں، ایک بار نہیں بار بار دیکھتی ہوں، میری آنکھیں تھک جاتی ہیں، اشک بار ہو جاتی ہیں،میرا دل سسکیاں لے لے کے دوہاییاں دیتا ہے، نوحے پڑھتا ہے، نظمیں، آزاد نظمیں، غزلیں، ناول، افسانے، کالم لکھتا ہے، اپنی بے یارو مددگاری، اپنی بے نوای، اپنی جگ ہنسای پہ کوی بھلا کتنا رو سکتا ہے؟؟؟؟
کوی بھلا کتنا کڑھ سکتا ہے؟؟؟؟ ؟
کوی بھلا کتنا شکوہ کناں ہو سکتا ہے؟؟؟؟ ؟
ہاں جتنا بھی زیادہ سے زیادتی کوی دوہای دے سکتا ہے،میں اتنی ہی دوہاییاں دیتی ہوں، اتنے ہی شکوے کرتے ہوں، اتنے ہی نوحے پڑھتی ہوں، اتنا ہی واویلا مچاتی ہوں جتنا آپ میں سے کوی بھی اپنے قیمتی جانی و مالی نقصان پہ واویلا مچا سکتا ہے. مگر میرے دل کی اداسی کم ہوتی ہے نہ میرے آنکھوں سے جاری اشکوں کی برساتیں……..
نہ اشک تھمے، نہ دل ٹھہرا
ہم روتے رہے، غم کے.. مارے
غم ساتھ رہا، مرے ساتھ چلا
، بے نامی میرے ساتھ چلی
غربت میرے پرکھوں کی ادا
اک لمبی سزا
بھوک
بھوک
اور
صرف بھوک
ہی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، باقی تمام مسائل اس مسئلے کے بعد سر اٹھاتے ہیں، سڑکوں پہ، گھروں میں، گھروں کے لانوں میں، دالانوں میں، گھروں کی چھتوں پہ، چھتوں کے چوباروں میں کتنے لوگ تھے،اور کتنے مظلوم لوگ تھے جو لوگوں کے ظلم و بر بریت کا شکار ہو کے سانسوں کی بازی ہار گیے، ہر انسان کے پیدا ہونے پہ خوشیوں کے شادیانے بجاے جاتے ہیں، مٹھاییاں بانٹی جاتی ہیں، اپنے اپنے علاقے کے حساب سے دھوم دھڑکا کیا جاتا ہے، حسب توفیق صدقہ خیرات بھی کیا جاتا ہے، ہر انسان اپنی اپنی اوقات میں رہ کر اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے نیک نیتی سے کوششیں بھی کرتا ہے، ذرا گردن اٹھا کے دیکھ لیجیے تمام دنیا کے انسان کم و بیش اسی دونی کے پہاڑے کی گردان کرتے کرتے یہاں سے وہاں ہو جاتے ہیں.اور باوجود اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہونے کہ. کہ یہ دنیا اور دنیاوی دھندے چند پل کے کھیل کے سواکچھ بھی، ہم ہر شے کی آگاہی رکھتے ہوے بھی اس جھوٹی دنیا داری کے دھندوں میں الجھے رہتے ہیں بلکہ بڑے شوق سے الجھے رہتے ہیں.
ازلوں سے یہ بد بخت بھوک کیوں ختم نہیں ہو جاتی؟؟؟؟
کیونکہ اس بھوک نے ہی انسان کو گھروں میں، گلیوں میں، کوچہ و بازار، ہر اک دیار میں جی بھر کے بلکہ کہنا چاہیے کہ انے واہ ذلیل و خوار کروایا ہے اور اتنی ذلت اور خواری کےباوجودبھی بھوک کا جن ویسے کا تیسا ہے، ہم سب اس بھوک کے جن کو بوتل میں قیدکرنے سے قاصر ہیں.
خیر بھوک کے رولے کو مٹانے کے لیے ہر انسان اپنی بساط کے مطابق کوششیں ضرور کرتا ہے وہ جو پینتس چالیس لاکھ روپے ایجنٹس کو دے کے زندگی موت کی بازی لگا کے انسانی اسمگلنگ کا حصہ ہی نہیں بنتے، موت کو بھی گلے لگا لیتے ہیں. کتنا مشکل ہے ناں کسی جیتے جاگتے انسان کے لیے موت کو ہنس کے گلے لگا لینا. یہ خیال ہی سوہان روح ہے، لیکن غور طلب مسءلہ ہے کہ کیا عذاب اتر آیا ہے بستیوں پہ کہ لوگ اپنی زمینیں، جائیدادیں اور زیورات بیچ کر بھی بیرون ملک غلط طریقوں سے باہر کے ممالک میں سینگ اڑانے کے لیے موت کے پروانے پہ بھی ہنسی خوشی دستخط کر دیتے ہیں.
جب سے ہوش سمبھالا ہے، یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ باہر جاو اور اپنی معاشی حیثیت یعنی اپنے سٹینڈرڈ کو بلند کرو، گویا فی زمانہ عزت صرف اہل ثروت ہی کی جاگیر ٹھہری. بغیر دولت کے نہ انسان کی کوئی حیثیت ہے نہ کوی رتبہ. اسی حیثیت کے حصول کے لیے باہر جانے والے حضرات اپنی موت کے پروانے پہ دستخط کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے.
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عزت، شہرت اور مال و دولت اللہ پاک کی عطا ہیں آپ نہ کسی سے اس کی. حیثیت، مرتبہ اور دولت و شہرت چھین سکتے ہیں نہ کوی آپ سےچھین سکتا ہے مگر حیثیت اور رتبے کی اندھی ڈور نے انسان کو عجب قسم کے مخصمے اور بے سکونی میں مبتلا کر رکھا ہے.
میرا گھر چھوٹا کیوں ہے؟؟؟
میرے کپڑے عام سے کیوں ہے؟؟؟؟
میرے پاس گاڑی کیوں نہیں ہے.؟؟؟؟
ان بے ہنگم اور الٹے سیدھے سوالات نے ہر شخص کا جینا مشکل کر رکھا ہے اب تو اس سماجی تفرقہ بازی نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے دل و دماغ کو بھی اپنے مکروہ شکنجے میں لے لیا ہے. سکولوں میں بچوں کے بھی دو گروپ بن چکے ہیں امیر وں کاگروپ اور غریبوں کا گروپ اب وہ لوگ جو دو وقت کا روٹی ٹکر مشکل سے پوری کرتے ہیں وہ اپنے بچوں کے لیے مہنگے داموں برانڈڈ چیزیں بھلا کیسے خریدیں؟؟؟ ؟
صباحت، گھروں میں کام کرنے والی ایک ماسی کی بیٹی تھی، ماسی کو بیٹی کو انگلش میڈیم اور مہنگے سکول میں پڑ ھانے کا بہت شوق تھا اس نے اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے کءی کءی گھنٹے تک گھروں میں جھاڑ پونچھ کی. کتابیں، کاپیاں، سٹیشنری ہر شے ماں مہیا کر دیتی مگر برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں سے مار کھا جاتی اور ظالم سماج صباحت کی اس کمزوری کا اس کی بری طرح سے ذلیل کر کے حق وصول کرتا.کہ قلم اس بے غیرتی کو لکھتے ہوے کانپ جاے،
جہان عالم کشمیر کے ایک دور افتادہ گاوں سے کسی نہ کسی طرح دبءی پہنچ کے ٹیکسی ڈرائیور بن تو گیا مگر اس کی روداد سن کے بھی دل خون کے آنسو ہی روتا ہے
خون کے آنسو
یہ سنتے آئے تھے اکثر
دل خون کے آنسو روتا ہے
پر آج سمجھ میں آیا ہے
کہ خون کے آنسو کیا مطلب
تو دعا کیجیے کہ یہ خون کے کے آنسو ہمیں نہ بہانے پڑ جایں.
جہان عالم کے بقول یہاں پردیس میں ہم کءی کءی
مہینے تک جانوروں جیسی مشقت کر کے ایک وقت کی روٹی کھا کے اپنے بیوی بچوں کے لیے برانڈڈ تحائف لے کر اپنے گاؤں جاتے ہیں اور ہمارے بیوی بچے ان تحایف کی نمایش پورے گاوں والوں کے سامنے کرتے ہیں اور پھر گاوں والے بھی باہر آنے کی الٹی سیدھی تدبیریں کرتے ہیں تو میں ان کی معصومیت پہ دل ہی دل میں روتا ہوں کہ بیچارے کیسے ظاہری نمود و نمایش سے دھوکہ کھا جاتے ہیں.
صرف اپنے آپ کو معاشرے کا باعزت شہری ظاہر کرنے کے لیے لوگوں کو کتنے ناٹک کرنے پڑتے ہے. مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب کا مشہور زمانہ افسانہ گھر سے گھر تک یاد آ گیا.
بازار میں ایک عورت سر عام دوکاندار سے کہنے لگے بھای مجھے اپنی دوکان کا سب سے مہنگا سوٹ دو میں خریدار ہوں میں نے مڑ کر اس موٹی، ناٹی معمولی شکل و صورت کی خاتون کو بغور دیکھا اور مجھے سمجھ لگ گءی یقیناً اس عورت کا میاں باہر کے کسی ملک میں مزدوری کر کے جو پیسے اس عورت کو بھیجتا ہے یہ ان پیسوں کو بازار میں اڑا کر موج مستی کر رہی ہے.
عزت، عزت اور عزت
ارے یہ عزت نامی حوا بھی نہ، اسے حاصل کرنے کے لیے بھی نہ
انسان کو بڑا ہی بے عزت ہونا پڑتا ہے.
اور جب کوی انسان اللہ پاک کے حکم سے عزت سے اپنا مقام بنا لیتا ہے پھر حاسدین کا ٹولہ آ کے انسان کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتا ہے.
گروپ اور گروپ بندیوں نے بھی انسان کو کافی زک پہنچای ہے، جھوٹ کی سیاست بھی عہدوں کے حصول کے لیے ایک مجرب نسخے کی حیثیت رکھتی ہے اور ہمارے جیسے سیدھے سادھے لوگ یہ کہہ کے ہی اپنے آپ کو تسلی دے لیتے ہیں کہ
یہ سیاست دنیا ختم ہونے والی ہے
رات ڈھلنے والی ہے سحر ہونے والی ہے.
اے مالک اپنی زمین پہ اتر کے تو دیکھ وہ انسان جسے علم و شعور کی بڑھوتری پہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا تھا کیسے کیسے حصول رزق اور عزت کے لیے جا بجا ذلیل و خوار ہو رہا ہے اور عہدوں پہ سفارشی، جھوٹے اور شیاطین مردود کے چیلے قابض ہیں. قانون کی دیوی آنکھیں موندھے محو استراحت ہے، غنڈوں کی حکومت ہے اور اہل منصب کو روپوش کر دیاگیا ہے
تیری اس میں میں کرتی دنیا کا اللہ تو ہی حافظ ہے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International