ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
کویت نے 19 سال کے طویل تعطل کے بعد بالآخر پاکستانی شہریوں کے لیے ویزہ پابندی ختم کر دی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان اور کویت کے دو طرفہ تعلقات میں ایک مثبت پیش رفت کی علامت ہے بلکہ ہزاروں پاکستانی خاندانوں کے لیے معاشی، تجارتی اور سیاحتی مواقع کے نئے دروازے کھولنے جا رہا ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے تاریخی عوامل، سفارتی کاوشیں اور بین الاقوامی حالات کا ایک گہرا پس منظر موجود ہے۔
پاکستان اور کویت کے تعلقات کی جڑیں 1960 کی دہائی میں اس وقت مضبوط ہونا شروع ہوئیں جب پاکستانی ورک فورس نے کویتی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع کیا۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیکنیشنز، ڈرائیورز، اور دیگر فنی عملہ کویت کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ کویت میں ایک بڑی اور محنتی پاکستانی کمیونٹی موجود رہی ہے جس نے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مضبوطی بخشی۔
تاہم 2006 میں بعض داخلی سیکیورٹی خدشات، سفری قوانین کی خلاف ورزیوں اور جعلی دستاویزات کی بنیاد پر کویت نے پاکستانیوں کے لیے نئے ویزوں کے اجرا پر غیر علانیہ پابندی عائد کر دی۔ یہ پابندی تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہی جس کے دوران ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار، تعلیم اور خاندانی ملاپ کے مواقع سے محروم رہنا پڑا۔
موجودہ پیش رفت پاکستان کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ 2024-25 میں وزیر سمندر پار پاکستانیز چوہدری سالک حسین اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی مسلسل کوششوں سے کویتی حکومت نے اس طویل پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب پاکستانی شہری ورک، فیملی، وزٹ، سیاحتی اور کمرشل ویزے آن لائن سسٹم کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں، جن کی کارروائی 24 گھنٹوں میں مکمل ہو سکتی ہے۔ وزارت اوورسیز پاکستانیز کے ترجمان کے مطابق اس فیصلے سے ہزاروں پاکستانیوں کو کویت میں قانونی روزگار، کاروباری شراکت داری، تجارتی سرگرمیوں اور خاندانی ملاقاتوں کے مواقع میسر آئیں گے۔
کویت کی جانب سے ویزہ پابندی ختم ہونے سے پاکستان کی بیرون ملک ترسیلات زر (Remittances) میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ موجودہ معاشی حالات میں جب پاکستان کو زرِ مبادلہ کی اشد ضرورت ہے، یہ اقدام حکومت کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ کویت میں پاکستانی کمیونٹی کی مضبوط موجودگی سے پاکستان کا سماجی و ثقافتی تشخص بھی ابھرتا رہے گا۔
اس مثبت پیش رفت کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم قدم پاکستان اور اٹلی کے درمیان غیر قانونی امیگریشن کی روک تھام اور قانونی ورک فورس کے تبادلے سے متعلق مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط ہیں۔ اٹلی، یورپی یونین کا پہلا ملک ہے جس نے براہ راست پاکستانی ورک فورس کے لیے ایم او یو پر دستخط کیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی مزدور اب قانونی طریقے سے اٹلی میں کام کرنے جا سکیں گے، جو نہ صرف پاکستانیوں کے لیے عزت و وقار کا ذریعہ ہو گا بلکہ غیر قانونی ہجرت جیسے مسائل میں بھی کمی آئے گی۔
یہ اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر حکومت پاکستان سنجیدگی اور حکمت عملی کے ساتھ سفارتی میدان میں متحرک ہو تو نہ صرف بیرون ملک پاکستانیوں کی مشکلات کم کی جا سکتی ہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی استحکام دیا جا سکتا ہے۔ کویت کی جانب سے ویزہ پابندی کا خاتمہ اس امر کا ثبوت ہے کہ دو طرفہ احترام، شفافیت اور موثر مذاکرات کسی بھی تعطل کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کویت کی جانب سے پاکستانیوں پر عائد ویزہ پابندی کا خاتمہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ اس فیصلے سے نہ صرف ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں سنوریں گی بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی نئی راہیں میسر آئیں گی۔ اگر حکومت پاکستان اسی تسلسل سے یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ قانونی ورک فورس کے معاہدے کرتی رہی تو پاکستان عالمی لیبر مارکیٹ میں ایک اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔
یہ موقع صرف ایک سفارتی کامیابی ہی نہیں بلکہ ایک عوامی فتح بھی ہے۔ امید ہے کہ پاکستان آئندہ بھی اپنے شہریوں کے حقوق اور مواقع کی بازیابی کے لیے بین الاقوامی سطح پر اسی سنجیدگی اور وقار کے ساتھ قدم اٹھاتا رہے گا۔
Leave a Reply