ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پاکستان ان دنوں کپاس کی پیداوار شدید خطرے سے دوچار ہے۔ جو دنیا کے بڑے کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا تھا گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس شعبے میں شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال ہمارے ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ کپاس کی پیداوار میں کمی نہ صرف ملکی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری جوکہ ہماری برآمدات کا اہم جزو ہے اس بحران سے بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
پاکستان میں کپاس کی کاشت کا آغاز برطانوی دور میں ہوا اور یہ جلد ہی ہماری معیشت کا اہم جزو بن گئی۔ قیام پاکستان کے بعد کپاس کی پیداوار نے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ پیداوار میں کمی آنا شروع ہوئی اور گزشتہ دو دہائیوں میں یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔
کاٹن جنرز فورم کے مطابق کپاس کی موجودہ فصل میں 15 جنوری تک کپاس کی مجموعی پیداوار میں گزشتہ برس کی نسبت 34 فیصد کمی آئی ہے۔ نئی فصل سے روئی کی کل 54 لاکھ 90 ہزار گانٹھیں حاصل ہوئیں ہیں جبکہ پیداواری ہدف ایک کروڑ 11 لاکھ گانٹھیں رکھا گیا تھا۔ اس کمی کے باعث پاکستان کو 50 لاکھ سے زیادہ گانٹھیں درآمد کرنی پڑیں گی جوکہ ملکی معیشت پر بھاری بوجھ ڈالے گا۔
کپاس کی پیداوار میں کمی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں موسمی تبدیلی، کیڑے مکوڑوں کا حملہ، متبادل فصلوں کی ترجیح اور زرعی رقبے میں کمی شامل ہیں۔موسمی تبدیلیاں کپاس کی کاشت پر براہ راست اثر ڈال رہی ہیں۔ غیر متوقع بارشیں اور درجہ حرارت میں اضافہ فصل کی نشوونما کو متاثر کرتے ہیں۔گزشتہ برس کپاس کی فصل پر کیڑوں کے حملے نے بڑی مقدار میں کپاس کے پھولوں کو نقصان پہنچایا۔ اس کے نتیجے میں پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔کسانوں نے زیادہ منافع بخش فصلوں، جیسے گنا اور چاول کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ کپاس کی کاشت میں بڑھتے ہوئے اخراجات اور کم منافع ہے۔آبادی میں اضافے اور نئی تعمیرات کے باعث زرعی رقبہ سکڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، وفاقی اور صوبائی سطح پر زمین کے بہتر استعمال کے لیے فزیکل پلاننگ پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔
مقامی زرعی یونیورسٹیوں، ترقیاتی اداروں اور ریسرچ کونسلوں کے توسط سے جدید سائنسی تحقیق کو فروغ دیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ایسی بیجوں کی اقسام متعارف کرائی جائیں جو موسمی تبدیلیوں اور کیڑوں کے حملوں کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔
کسانوں کو جدید کاشتکاری کے طریقوں سے روشناس کرایا جائے اور انہیں کپاس کی کاشت کے فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو سبسڈی فراہم کرے تاکہ وہ کپاس کی کاشت کی طرف راغب ہوں۔
زرعی زمین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور نئی تعمیرات کے لیے غیر زرعی زمین کا استعمال یقینی بنایا جائے۔کپاس کی کاشت، کٹائی اور پروسیسنگ کے لیے جدید مشینری فراہم کی جائے تاکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر ایک جامع حکمت عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ کپاس کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہو سکے۔
کپاس کی پیداوار میں کمی پاکستان کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے اثرات معیشت اور ٹیکسٹائل انڈسٹری پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو پاکستان دوبارہ کپاس کی پیداوار میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی شعبے میں انقلاب لائیں تاکہ نہ صرف کپاس بلکہ دیگر اجناس کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ ممکن ہو سکے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Leave a Reply