Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کھویا ہوا مستقبل

Articles , Snippets , / Thursday, May 15th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور بات ہے کہ جب ارسطو سے کوئی شخص شرفِ ملاقات حاصل کرتا تو ارسطو اُس سے پہلا سوال جو دریافت کرتا وہ ہوتا کہ جناب اپنا تعارف تو کروائیے ۔ اب اگر وہ شخص اپنے باپ دادا کا حوالہ دے کر تعارف کرواتا کہ میں فلاں صاحب کا فرزند، فلاں صاحب کا پوتا ہوں، یا فلاں قبیلے کا فرد ہوں، تو ارسطو ہنستے ہوئے کہتا کہ جناب آپ کی اپنی بھی کوئی تعریف ہے یا آباء و اجداد اور قبیلے کے نام پر ہی خود کو معزز سمجھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ پڑھ کر جب آپ اپنے گرد و پیش نظر دوڑاتے ہیں تو زیادہ تر آباء و اجداد اور قبیلے کے نام پر ہی معزز بن کر اپنی شخصیت پر نازاں نظر کے سامنے گھومنے لگتے ہیں، یہ وہ اشخاص ہیں جن کے اندر تو کوئی خوبی نظر نہیں آئی، لیکن اُن کا فخر ماضی کی تاریخ سے ہی جڑا ہوا ملا۔ یہ اشخاص ایک ایسی بات پر نازاں نظر آتے ہیں جس میں بخت کی یاوری کا دخل ان کی ذاتی محنت پر بھاری پڑ گیا ہے۔ اب اگر جناب کے دادا نے شیر مارا تھا تو اس کا مطلب یہ کیسے لیا جا سکتا ہے کہ پورے خاندان میں پیدا ہونے والا ہر فرد شیر کوہ کی خصوصیات لے کر ہی پیدا ہو گا، لیکن اگر غور سے دیکھیں تو خاندان کا ہر فرد ہی یوں چوڑا ہوا پھرتا نظر آئے گا جیسے شیر کا جنگل سے صفایا اِس خاندان کے ہاتھوں ہی ہوگا، لیکن خاندان کے افراد رات کو ڈر کے مارے اندھیری گلی سے نہیں گزرتے کہ کہیں کتا نہ کاٹ لے ۔ مشہور لطیفہ ہے کہ ایک شخص نے رات کے وقت کسی مکان کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کسی نے پوچھا جناب کون ہیں؟ کہنے لگا شیر خان ہوں۔اگلے نے پوچھا کس کے فرزند ہو، کہنے لگا دلیر خان کا، دادا کا نام دریافت کرنے پر فخر سے کہا کہ شمشیر خان ہے۔ اندر والے نے دریافت کیا کہ پھر باہر کیوں کھڑے ہو اندر آ جاؤ۔ کہنے لگا کہ اندر کیسے آؤں آپ کے گھر کے سامنےکتا کھڑا ہے اس کو ہٹا لیں کہیں کاٹ نہ لے ۔ اس لئے کہا جاتا ہےکہ صرف نام رکھنے سے بہادری پیدا نہیں ہوتی اس کے لئے جان میں جگرا ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے ، کچھ ایسا ہی حال امتِ مسلمہ کا بھی ہے، ساری امت ماضی کے شاندار کارناموں پر فخر کرتی ملے گی، کتنے کتابیں لکھ کر اسلاف کے گن گاتی اس امتِ مسلمہ سے جب دریافت کیا جائے کہ ‘تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ‘ ، تو فوراً سے پیشتر پھر سے وہی راگ الاپنا شروع ہو جائیں گے کہ ‘چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا ‘ بھئی مان لیا سب کچھ آپ کا ہی ہے لیکن یہ تو بتائیں کہ وقتِ موجود میں شکنجہ کفار میں کیوں ہے ، اور اگر ہے بھی تو اس کو چھڑوانے کی ذمہ داری اسلاف کے ذمے لگا دی ہے یا مستقبل میں کوئی ابن قاسم بھی آئے گا۔ تو چھاتی پھلا کر فخر سے گوش گزار کریں گے کہ بہت جلد مستقبل میں امتِ مسلمہ آندھی کی طرح اٹھ کر کل عالم پر چھا جائے گی۔ اب اگر پوچھ لو اس کے لئے کتنی محنت کر رہے ہیں اور ایسی کونسی نسل تیار کر رہے ہیں؟؟ وہی نسل آپ کی امیدوں کا محور نظر آتی ہے جو ٹک ٹاک پر اسلاف کی عزتیں نیلام کر کے پیسہ کمانے میں مصروف نظر آ رہی ہے، یا وہ جو آندھی اور طوفان کی طرح آ کر لوگوں سے ان کی محنت کا مال زبردستی چھینا جھپٹی کر کے اپنی زندگیاں روشن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ارے جناب اسلاف جیسی عظمت و شان حاصل کرنے کے لئے یہ بات بھی ذہن نشین کرنی ہو گی کہ ‘ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر۔۔ اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر ‘ ، اب موجودہ امت خوش تو ماضی کے قصے سنا کر ہو جاتی ہے اور یقین اس بات پر رکھتے ہیں کہ جو ہوگا وہ اب مستقبل میں ہو گا یہ بری الذمہ ہو چکے ہیں ، سو اب جو کریں گے وہ مستقبل والے ہی کریں گے ۔ غلطی سے پوچھنے کی جسارت کر لیں کہ جناب اس سارے عرصہ میں آپ کیا کریں گے؟ تو کمال بے اعتنائی سے فرمائیں گے ہمیں تو نانِ جویں نے ایسا دیوانہ بنایا ہے کہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ، اگر ان کو یاد کروانے کی کوشش کریں کہ کیسے ایک خاتون کی پکار پر لشکرِ اسلام پہنچ گیا تھا، اور اب ہر طرف چیخ و پکار ان کے کانوں کا پردہ چاک کیوں نہیں کرتی؟ تو وہی فرسودہ رونا رونے کو تیار ملے گا کہ یہ سب کفار کی سازش ہے کہ کسی بھی طرح امتِ مسلمہ ایک نہ ہونے پائے۔ سو کفار کی کامیاب سازش کی بدولت اب ہر کوئی اپنے اپنے حال میں مست ملے گا اور سوچ سب کی یکساں ہو گی کہ جب بھی ساری امت ایک ہو جائے گی تو کفار کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اب یہ امت ایک کب اور کیسے ہو گی اس کے لئے سارا پلان مستقبل والوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جانیں ہم کیوں اپنی جان ہلکان کریں۔ ہمیں تو فی الحال ٹک ٹاک سے پیسے کمانے ہیں۔ وہاں چار و ناچار چند آنسو بھی ساتھ بہا لیں گے اور گنگنا بھی لیں گے ‘اے خاصہ ء خاصان رسل وقتِ دعا ہے۔۔ امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے ‘ ۔گنگنانے کے پیسے الگ مل جائیں گے۔ اب کون بتائے کہ سنت تو عملی جہاد کی ہے، وہ کب ہو گا، تو جناب امتِ مسلمہ کو جب ٹک ٹاک سے فرصت ملے گی تو عملی جہاد کرنے کا بھی سوچ لیں گے۔ اب یہ فرصت کب اور کیسے ملے گی اس کا فیصلہ بھی مستقبل پر چھوڑ دیا گیا ہے، اور مستقبل ٹک ٹاک کے حوالے کر چکے ہیں کہ یہ جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بچوں اور بزرگوں کو دیکھ کر زیادہ ویوز ملتے ہیں، سو جتنے زیادہ ویوز اتنے زیادہ پیسے، لیکن بزرگ تو ہمارا ماضی ہے اور بچے ہمارا مستقبل، اگر دونوں دکھا کر ہم پیسہ ہی کما رہے ہیں، تو پھر تیار کن نونہالان کو کر رہے ہیں جو ہمارے شاندار مستقبل کے حصول کی ضمانت قرار پائیں گے۔ کیا مستقبل کی امتِ مسلمہ بھی مزید آگے آنے والے مستقبل پر یہ سب ذمہ داریاں ڈال کر اس نسل کی طرح نانِ جویں کے چکر میں چکراتی پھرے گی؟ حال تاریک کرنے والے اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل بھی تاریک کر رہے ہیں اور اس ضیاع کا زرا سا بھی غم انہیں نہیں ہے ۔ کبھی قبرستان جا کر غور سے دیکھیں، کتنے ہی دنیا کمانے والے دنیا چھوڑ گئے ہیں اور آج بھی نام اسلاف میں سے ان کے ہی زندہ ہیں جنہوں نے سیدھے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کا پیغام کونے کونے میں عام کیا ۔ اب بھی امت خوابِ خرگوش سے جاگ جائے اور اپنے مقصدِ حیات کی طرف لوٹ آئے تو اسلاف والی عظمت دوبارہ حاصل ہونا کارِ مشکل نہیں ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International