تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
کیا امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ چھڑنے والی ہے؟جنگ کاخدشہ اس وجہ سے بڑھ چکا ہے کہ دو،تین دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہےاور اس خط میں مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے نیز مذاکرات نہ کرنے کی صورت میں فوجی کاروائی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ایران نےمذاکرات کی پیشکش کو رد کر دیا ہے۔تہران کی طرف پہلے بھی کئی بار وضاحت کی جا چکی ہے کہ دباؤ یا دھمکی کے تحت مذاکرات نہیں ہوں گے۔آیت اللہ خامنہ ای نے بھی کہا ہے کہ مذاکرات کے دباؤ کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ اس کا مقصد ایران کے میزائل پروگرام اور خطے میں اس کے اثرورسوخ کو محدود کرنا ہے۔خامنہ ای نے ہفتہ کے روز حکام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک بدمعاش حکومت ان پر مذاکرات کے لیے زور دے رہی ہے لیکن ان مذاکرات کا مقصد مسائل کا حل نہیں بلکہ اپنی مرضی دوسرے فریق پر مسلط کرنا ہے۔خامنہ ای نے اس خط کا جواب دیا،جو ٹرمپ کی طرف سےان کو بھیجا گیا ہے۔اس خط میں جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اس معاہدے کی جگہ نیا معاہدہ کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امریکی مطالبات نہ صرف عسکری نوعیت کے ہوں گے بلکہ ان کا ایران کے خطے میں اثرورسوخ پر بھی فرق پڑے گا۔ٹرمپ نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے ایک خط لکھا ہےجس میں کہا ہے کہ”مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کریں گے،کیونکہ اگر ہمیں فوجی کاروائی کرنا پڑی، تو یہ بہت خوفناک ہوگا”ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے بھی ایک بیان دیا ہےکہ ایران امریکہ سے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری نہیں رکھے گا۔
امریکہ اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیارموجود ہوں۔جوہری ہتھیار رکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ طاقت کا توازن تبدیل ہو جائے۔ایران کی عالمی پابندیوں کی ذد میں ہونے کی وجہ سےمعاشی صورتحال بہت ہی کمزور ہو چکی ہے۔موجودہ دور کا جدید اسلحہ بھی ایران کے پاس نہیں اورکئی ممالک کے ساتھ حالات تشویش ناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ایران کوشش کر رہا ہے کہ اپنے تحفظ اور سلامتی کو محفوظ کر لے۔ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں کافی عرصہ سےباتیں ہورہی ہیں۔ایران کا موقف ہے کہ ان کا جوہری پروگرام مثبت مقاصد کے لیے ہے،لیکن امریکہ سمجھتا ہے کہ جنگی مقاصد کے لیےاستعمال ہوگا۔وائٹ ہاؤس کی طرف سے بھی باضابطہ طور پر ٹرمپ کے خط کی تصدیق کر دی گئی ہےکہ ٹرمپ کا خط ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کی کوشش ہے۔ٹرمپ نے کہا کہ میں کسی سےمذاکرات کرنا زیادہ پسند کروں گا۔ہم کوئی ایسا معائدہ کر سکتے ہیں جو انتہائی موثر ہوگا جتناجنگ جیتنا۔وقت قریب ہے،کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ہمیں کچھ کرنا ہوگا کیونکہ ہم انہیں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔اب ایران نے دباؤ اور دھمکی کے نتیجے میں ہونےوالے مذاکرات سےانکار کر دیا ہے۔اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ مذاکرات کی مزید کوشش کرے۔ٹرمپ کی طرف سےایرانی جوہری پروگرام کو تلف کرنے کی صورت میں،ایران کو بہت بڑی آفر بھی کی جا سکتی ہے۔ابھی تک یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ خط میں کوئی ایسی پیشکش کی گئی ہے جوایران کے لیے نفع بخش ہو۔خط میں جنگ کی دھمکی دی گئی۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایران اپنی بات پر ڈٹا رہتا ہے،تو امریکہ اگلا قدم کون سا اٹھائے گا؟امریکہ کافی عرصےسے کوشش کر رہا ہے کہ ایران ایٹمی طاقت حاصل نہ کر سکے۔بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی(IAEA)کی تازہ رپورٹ کے مطابق ایران کا یورنیم ذخیرہ 4۔8294کلو گرام تک پہنچ چکا ہے۔جس میں سے کچھ تو 60 فیصد خالصیت تک افزودہ کیا جا چکا ہے۔یہ ہتھیاروں کے معیار(℅90)کے قریب پہنچنے کے لیے ایک تکنیکی طور پر چھوٹا مگر اہم ہے۔وائٹ ہاؤس بھی وضاحت کر چکا ہے کہ معائدےیا فوجی کاروائی کے ذریعے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔اب اگر معاہدہ نہیں ہوتا،تو جنگ کا امکان بہت بڑھ جائے گا۔امریکہ اور ایران کی جنگ مشرق وسطی کے پورےخطے کواپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ہو سکتا ہے ایران ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہو،تووہ ایٹمی ہتھیار استعمال بھی کر سکتا ہے۔اگر ایٹمی ہتھیار استعمال ہوئے تو اس کے نتائج پورے خطے کے لیے خوفناک ہوں گے۔
امریکہ ایران کے ساتھ باقاعدہ جنگ شروع کر سکتا ہےاور اس بات کا بھی امکان ہے کہ اسرائیل یا کسی دوسرے ملک کو ایران کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کرلیا جائے۔ایران کے پڑوسی ممالک کی سرزمین بھی جنگ میں،ایران کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ایران ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ اس جنگ سے بچا جا سکے۔جنگ چھڑنے کی صورت میں ایران شاید چند دن تک بھی دفاع نہ کر سکے،ہاں ایٹمی ہتھیار اگر اس کے پاس ہیں تو وہ استعمال کر سکتا ہےاور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال غیر یقینی نتائج پیدا کر دے گا۔یہ جنگ تیسری عالمی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔امریکہ اور نیٹو ایران کے خلاف جنگ چھیڑ سکتے ہیں۔ایران کو اپنی پوزیشن کا اچھی طرح احساس ہےاور کمزور پوزیشن کی وجہ سے جنگ کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ایران پہلے بھی عالمی تنہائی کا سامنا کر رہا ہےاور امریکہ کے مقابلے میں کوئی مشکل سے ہی اس کی مدد کرے گا۔بات وہیں آ جاتی ہے کہ ایران ایٹمی قوت ہی جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں،تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ ایران شکست کھا جائے گا۔دنیا کے دیگر حصوں کی نسبت مشرق وسطی میں کشیدگی بہت بڑی ہوئی ہے،امریکہ اور ایران کی جنگ کشیدگی میں کئی گنا اضافہ کر دے گی۔وسیع پیمانے پر نسل انسانی کے قتل ہونےکا خطرہ ہےاور دیگر مسائل بھی پیدا ہو جائیں گے۔تہران کی طرف سےمذاکرات سے اس لیے بھی انکار کیا جا رہا ہے کہ اگر امریکی شرائط کے مطابق جوہری توانائی کو زائل کر دیا جائے،تو اس بات کی کیا گارنٹی ہوگی کہ امریکہ یا کوئی اور ملک ایران پر حملہ نہیں کرے گا؟بہرحال حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ایران امریکہ جنگ چھڑنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
Leave a Reply