rki.news
ایران کا امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تناؤ بہت ہی بڑھا ہوا ہے۔یہ تناؤکسی بھی وقت جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔اسرائیل نےفلسطین کی اعلی قیادت کو ایران میں شہید کر دیا تھا تو اس بات کا امکان بڑھ گیا تھا کہ جنگ شروع ہونے والی ہے۔اس سے قبل بھی کئی دفعہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ امریکہ یا اسرائیل کی ایران کے ساتھ جنگ شروع ہو رہی ہے،مگر جنگ شروع نہ ہو سکی۔اب بھی تناؤ بہت بڑھ چکا ہےاوریہ امکانات بھی ہیں کہ جلد جنگ چھڑنے والی ہے۔حال میں جو سب سے بڑی وجہ جنگ کے لیےنظرآرہی ہے وہ ہےیورنیم کی افزودگی۔امریکہ اور ایران کے درمیان یورنیم افزودگی پر مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔امریکہ کی طرف سے ایران پریورنیم افزودگی کو روکنے کے لیےدباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ایران اس دباؤ کو برداشت کر رہا ہے۔ایران پر امریکہ اور اسرائیلی کی طرف سے یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔اس کا بھی امکان ہے کہ امریکہ کو جدید ذرائع سےمعلوم ہو چکا ہو کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے۔ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اسرائیل کے لیے سخت خطرہ ہے،بلکہ اسرائیل کو تباہ بھی کیا جا سکتا ہے۔اسرائیل کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کسی صورت میں قبول نہیں۔اسرائیلی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل ہو جائے گا اگر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران اسرائیل کے آگے رکاوٹ بن جائے۔ایران بہت سی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہےاور جنگ کا امکان بھی ہے،لیکن وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ایران کی طرف سے بار بار وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایرانی ایٹمی پروگرام جنگی مقاصد کےلیے نہیں ہے بلکہ مثبت مقاصد کے لیے ہے۔تہران یورینیم افزودگی سےکسی صورت میں دستبردار ہونے کے لیے تیار ہی نہیں۔ایرانی صدر مسعود پزشکیان نےدو ٹوک انداز میں وضاحت کی کہ ایران کو یورنیم افزودگی سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ تمام دباؤکو مسترد کرتےہیں اور اپنے یورنیم افزودگی کے حق پر قائم ہیں۔ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ عالمی قوانین ایران کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی سے متعلق سائنسی سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہیں۔ایران کےصدرکا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کو حاصل کرنے کا خواہاں نہیں،نہ ماضی میں ایسا چاہا اور نہ مستقبل میں ارادہ رکھتا ہے،کیونکہ یہ ایرانی عقیدے کے خلاف ہےتاہم وہ طبی، زرعی،صنعتی اور سائنسی مقاصد کے لیے افزودگی سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ایران کے لیے مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ایران مشکلات کو تو حل کرنا چاہتا ہے لیکن یورنیم کی افزودگی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔یورنیم افزودگی سےدستبرداری اس لیےبھی نہیں ہوگی کہ ایرانی گورنمنٹ امریکہ یا اسرائیل پر اعتبار کرنے کے لیے تیارہی نہیں۔اس لیےاعتبار نہیں کیا جا رہا کہ بعد میں اسرائیل یا امریکہ کی طرف سے حملہ ہو سکتا ہے۔
امریکہ کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ایران یورنیم افزودگی سے باز آجائے۔اطلاعات کے مطابق ایران پر اسرائیل حملہ کرنے کے لیےتیار ہے لیکن امریکہ فی الحال روک رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نےصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نیتن یاہو کو ایران پر کسی ممکنہ حملے کے خلاف خبردار کر دیا ہے۔تہران سے بات چیت کےدوران اسرائیلی حملہ مناسب نہیں۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ تہران کے ساتھ اچھی بات چیت جاری ہے۔اب یہ سوال اٹھتےہیں کہ کیا ایران یورنیم افزودہ کر کےایٹمی ہتھیار تیار کر چکا ہے؟یا ابھی ہتھیار تیار نہیں ہو سکے؟یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران واقعی ایٹمی ہتھیار نہ بنا رہا ہواوریورنیم افزودگی مثبت مقاصد کے لیے ہو۔زیادہ امکان یہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنا چکا ہے۔جوہری ہتھیار اگر ایران نہ بنا چکا ہوتا تو اسرائیل نے حملہ کر دیا ہوتا۔جاسوسی کے جدیدنظام کی بدولت اسرائیل اور امریکہ جان چکے ہوں گےکہ ایران ایٹمی ہتھیاربنا چکا ہے، تو اس صورت میں اسرائیل کے لیے خطرہ کئی گنا زیادہ بڑھ جاتاہے۔شبہ کی بنیاد ہی ایران پر حملہ کرنا شدید خطرے کا باعث ہوگا۔جنگ شروع ہونے کی صورت میں ایران لازمی طور پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا اور ایٹمی ہتھیاروں کااستعمال اسرائیل اوردوسرے مخالفین کے لیےبہت بڑی تباہی لائے گا۔ممکن ہےایران ابھی ہتھیار بنانے سے کافی دور ہو،اس لیےاسرائیل اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہتا کہ مستقبل میں کسی بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑے۔اسرائیل سمجھتا ہے کہ ایران اس وقت کمزورپوزیشن پر ہےاور اس پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا ہے،لیکن دیگربھاری ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہےاوریہی ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی اسرائیل کوحملہ کرنے سے باز رکھ رہا ہے۔
ایران یورنیم افزودہ کر چکا ہے یا نہیں،اس بات سے قطع نظر اسرائیل زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکے گا۔زیادہ دیر کا مطلب ہوگا مزید خطرات کاسامناکرنا۔امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات شاید جلد ہی بغیر نتیجہ کے ختم ہو جائیں،بے نتیجہ اس لیے کہ ایران اپنے حق کو چھوڑنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ایران کو اچھی طرح علم ہے کہ جوہری توانائی کسی ملک کی سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران یورنیم کو اس حد تک افزودہ کر چکا ہے جس سے فوری طور پر ایٹمی ہتھیار تیار کیے جا سکیں۔اگر ایران نے اس حد تک کامیابی حاصل کر لی ہےتو اسرائیل اور امریکہ کے لیے بھی خطرہ بڑھ چکا ہے۔ایران اگر امریکی شرائط کو تسلیم کر لیتا ہے،یعنی افزدہ یورنیم ضائع یا کسی اور طاقت کے حوالے کرنے پر تیار ہو جاتا ہے تواس کا مطلب ہوگا کہ ایران اپنے مضبوط حصار کو توڑ چکا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران کب تک اپنے موقف پر قائم رہ سکتا ہے؟ایران اگر جوہری توانائی کے پروگرام جاری رکھتا ہے تومشکلات تو بہت آئیں گی لیکن اپنی سلامتی کو کم از کم 90 فیصد تک محفوظ کر لے گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند سال کے بعد حالات ایران کے حق میں پلٹ جائیں تو اس وقت کی قربانیاں آئندہ ایرانی قوم کے لیےایک پائیداراور مضبوط مستقبل کا ضامن ہوں گی۔مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں امریکہ کی کوشش ہوگی کہ ایران کو سزا دی جائےتاکہ اس کا بھرم قائم رہ سکے۔امریکہ بھرم کو قائم رکھنے کے لیےخود بھی حملہ کر سکتا ہے اور کسی دوسری ریاست کو بھی تیار کر سکتا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ چھیڑ دے۔ایران کی ایٹمی توانائی امریکہ اوراسرائیل کے لیے نا قابل برداشت ہے،ان کی ہر حال میں کوشش ہوگی کہ ایران کے پاس جوہری توانائی موجود نہ ہو،چاہے مثبت مقاصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ایران کی کوششیں کتنی کامیاب ہوگی,یہ سب مستقبل میں معلوم ہوگا۔ابھی تو مذاکرات جاری ہیں،توقع کرنی چاہیے کہ ان مذاکرات سے بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
Leave a Reply