rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
دھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کے درمیان ملاقات ہوئی۔ملاقات میں بدمزگی پیدا ہوئی،کیونکہ ٹرمپ نےجنوبی افریقہ پرسفیدفاموں کی نسل کشی کا الزام لگادیا۔سیرل راما نےالزامات سے انکار کیا۔جنوبی افریقہ کے صدر تجارت پر گفتگو کرنا چاہتے تھے لیکن ٹرمپ نےسفید فام افراد کی نسل کشی کا ذکر شروع کر دیا۔ٹرمپ نےجنوبی افریقہ کے صدراورصحافیوں کوایسی تصاویر دکھائیں،جن میں سفید فام کےکسان جنوبی افریقہ سے بھاگ رہے تھےاورایک ویڈیو بھی دکھائی جس میں کچھ افرادکو’کسان کو مارو’کے نعرے لگاتےہوئے دکھایا گیا۔سیرل رامافوسانے وضاحت کی کہ یہ نعرے حکومتی پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ جنوبی افریقہ میں نسلی ہم آہنگی ہے۔اس ملاقات کے درمیان طیارے کا بھی ذکر کیا گیا۔طیارے کا ذکر اس لیے کیاگیاتھا کہ کچھ دن پہلے ٹرمپ کو قطر کے دورے کے دوران قطر کی حکومت نے ایک لگژری طیارہ تحفہ دیا تھا۔یہ ملاقات کامیاب ہوئی ہے یاناکام ہوئی،کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن بدمزگی ضرور پیدا ہوئی۔فروری میں امریکی صدر اور یوکرینی صدر کے درمیان بھی وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی تھی اور ان کی ملاقات شدید تلخی میں بدل گئی تھی۔یوکرینی صدر اس وقت کمزور پوزیشن پر تھےاورامریکی امداد کی بندش یوکرین کو شکست دلاسکتی تھی،اس لیے بعد میں یوکرین کو امریکہ کے آگے جھکنا پڑا۔جنوبی افریقہ اس وقت کسی مسئلے سے دوچار نہیں،اس لیے جنوبی افریقہ کے صدر نےبھی وقار سے جواب دیا۔ہو سکتا ہے بعد میں کچھ مسائل پیدا ہوں اور تعلقات میں تلخی پیدا ہو جائے۔
امریکی صدر پوری دنیا میں زیر بحث ہیں،کیونکہ ان کے اعلانات اور فیصلوں نےکئی ممالک کوپریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔جنوبی افریقہ معاشی طور پر زیادہ ترقی یافتہ نہیں،لیکن اتنا کمزور بھی نہیں کہ غربت کا مقابلہ نہ کر سکے۔سیرل راما فوسا مستقبل میں معیشت کومزید بہتر بنانا چاہتے ہیں اس لیے وہ امریکی صدر کے ساتھ اقتصادی معاملات پر بات کرنا چاہتے تھے۔جنوبی افریقہ میں 80 فیصد آبادی سیاہ فام افراد پر مشتمل ہےاور باقی 20فیصد آبادی مختلف نسلوں پر مشتمل ہے۔ان مختلف نسلوں میں یورپی سفید فام،چینی،پاک و ہند اور کچھ اور نسلیں بھی وہاں پائی جاتی ہیں۔جنوبی افریقہ کثیرالنسلی،کثیر المذاہب،کثیرالزبان اور کثیرالثقافتی ملک ہے۔سفید فام نسل نے دیگر نسلوں کوکافی عرصے تک دبائے رکھا۔1994 تک سیاہ فام نسل کوحق رائے دہی تک نہیں ملا تھا۔1994 کے بعد جنوبی افریقہ ایک لبرل اور جمہوری ملک کے طور پر متعارف ہوا۔جنوبی افریقہ کی بین الاقوامی بھی اہمیت ہےاور جمہوری لحاظ سے بھی بہترین پوزیشن پر ہے۔یہ دولت مشترکہ اورG20 دونوں کا رکن ہےاور اس کا دنیا میں معاشی لحاظ سے 39واں نمبر ہے،لیکن غربت بھی پائی جاتی ہے۔جنوبی افریقہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہوگی لیکن صرف ایک نسل کشی کا الزام لگانا درست نہیں۔دیگر نسلوں کے ساتھ بھی زیادتیاں ہو رہی ہوں گی اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔اگر واقعی سفید فام افراد کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں اور ان کو دبایا جا رہا ہےتوجنوبی افریقہ کی حکومت فوری طور پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رو کے۔کسی کسان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہےیاکسی دوسرے شعبے کے فرد کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تواس کا فوری طور پر ازالہ ہونا ضروری ہے۔بین الاقوامی طور پر جوحقوق ایک فرد کےلیے تسلیم کیے گئے ہیں،ان حقوق کا ملنا ضروری ہے۔جنوبی افریقہ میں اگرکچھ زیادتیاں ہو رہی ہیں،تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت بھی ان زیادتیوں میں ملوث ہے۔اگر پوری حکومت یاکسی حکومتی رکن کی طرف سےنسل،مذہب یا زبان کی وجہ سےزیادتی ہورہی ہے تو یہ جرم ہے۔امریکی صدر کے پاس اگر واقعی ثبوت ہیں تو جنوبی افریقہ کی حکومت فوری طور پر انسانی حقوق کی پامالی کو روکے۔
اب یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیاصرف جنوبی افریقہ میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے؟یہ بھی سوال ہے کہ کیا صرف سفید فام افراد کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے؟دنیا میں کیا کہیں اور ظلم نہیں ہو رہا؟غزہ میں مرتے ہوئے انسان کسی کو نظر کیوں نہیں آتے؟کشمیر میں ہونے والا ظلم،دنیا کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟سوڈان،شام،عراق اور دیگر کئی ممالک میں ظلم اپنی آخری حدوں کوچھو رہا ہے،لیکن اس کاذکر تک نہیں کیا جاتا۔ٹرمپ کچھ دن پہلے تسلیم کر چکے ہیں کہ غزہ میں لاکھوں افراد بھوک کی وجہ سےمر رہے ہیں۔ان مرتے ہوئےانسانوں کو خوراک دے کر بچایا جا سکتا ہے لیکن اسرائیل ان کی خوراک کو روک چکا ہے۔کئی ممالک میں انسانی حقوق کو روندا جا رہا ہے۔ظلم کو ایک اچھا انسان کبھی پسند نہیں کرتا۔کوئی بھی شخص،چا ہےکسی نسل یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس پر ظلم نہیں ہونا چاہیے۔سفید فام ہو یا سیاہ فام،امریکی ہو یا فلسطینی،عیسائی ہو یا ہندو،کسی بھی زبان یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والا ہواور اس پر ظلم ہو رہا ہو تویہ جرم ہے۔ظلم کو جرم تسلیم کرتے ہوئے روکنے کی کوشش کی جائے۔دنیا میں سب سے زیادہ زیادتیاں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ان مظالم کا تذکرہ نہیں کیا جاتا،جو مسلمانوں پر کیے جا رہے ہیں۔
کیا صرف دو چار تصویریں دیکھا کرالزام درست تسلیم کر لیا جائے کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔جو ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح پورے پورے علاقوں کو تباہ کیا جا رہا ہےنیز چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھوک سےسسکاسسکا کر مارا جا رہا ہے،کیا وہ ظلم نہیں؟زندہ رہنا انسان کا بنیادی حق ہےاور یہ حق چھینا بہت بڑا جرم ہے۔جنوبی افریقہ غزہ کےمظلوموں کے لیے بھی اٹھانے والوں میں سرفہرست ہےاور فلسطینیوں کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں بھی جنوبی افریقہ نے درج کروایا۔کیا جنوبی افریقہ پر اس لیے تو الزام نہیں لگایا جا رہا کہ اس کو سزا دی جائے کہ اس نےمظلوموں کے لیے آواز کیوں اٹھائی؟ظلم کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،ظلم کسی پر بھی نہیں ہونا چاہیےلیکن دوہرہ معیاراپنانا بھی قابل مذمت ہے۔ایک طرف معمولی سی زیادتی کا بھی حساب لیا جائے اور دوسری طرف بڑےسے بڑا ظلم نظر انداز کر دیا جائے۔جنوبی افریقہ ظلم کر رہا ہو یا کوئی دوسری ریاست،اس کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی پرظلم کیا جائےیا کسی کو زندہ رہنے کا حق ہی نہ دیا جائے۔سوال یہی ہے کہ کیا صرف جنوبی افریقہ میں سفید فاموں پرہی ظلم ہو رہا ہے؟
Leave a Reply