rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
ایران میں حالیہ دنوں جو خبریں سنائی دے رہی ہیں، ان میں ایک بار پھر “ریجیم چینج” یعنی حکومت کی تبدیلی کا شور ہے۔ یہ صدا نئی نہیں ہے، مگر اب کے بار اس میں جوش کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے، لہجے کچھ تیز تر ہو گئے ہیں، اور امیدیں کچھ خام تر ہیں۔ اسرائیل کی تازہ کارروائیاں، امریکہ کی زبردست حمایت، اور مغربی میڈیا کی مسلسل خبروں نے ایک عجب فضا قائم کر دی ہے جس میں لوگ یقین کرنے لگے ہیں کہ ایران کا اسلامی جمہوری نظام شاید اپنے انجام کے قریب پہنچ چکا ہے۔ مگر حقیقت اس فسانے سے مختلف ہو سکتی ہے اور کہیں زیادہ پیچیدہ بھی ہے۔
اسلامی ایران ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریے پر قائم ہے۔ اس کی ریاست کا دھانچہ محض جغرافیہ، سیاست یا عسکری قوت پر نہیں، بلکہ ایک دینی اور انقلابی فکر پر قائم ہوا ہے، جسے 1979 کے انقلاب نے مہمیز دی۔ ایسی ریاستیں باہر والوں کو بظاہر کمزور دکھائی دے سکتی ہیں، مگر ان کی جڑیں جذبات، قربانیوں اور عقیدے میں اتنی پیوست ہوتی ہیں کہ بیرونی حملے یا سفارتی دباؤ سے ان کا ڈھانچہ فوراً زمیں بوس ہو ہی نہیں سکتا۔ آج بھی ایرانی عوام کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر دیہی اور کم متوسط طبقہ، نظامِ ولایت فقیہ کو اپنی شناخت کا حصہ سمجھتا ہے۔ بلاشبہ درست ہے کہ شہری علاقوں میں بے زاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی، کرپشن، اور مذہبی سخت گیری سے عوام تنگ آ چکے ہیں، مگر ایسی بے زاری کئی دہائیوں سے موجود ہے اور یہ کبھی ایک ہمہ گیر عوامی بغاوت میں تبدیل نہیں ہوئی اور نہ ہی آسانی سے تبدیل ہوگی۔
مگر اس بار تو کچھ اور باتیں بھی ہیں۔ ایران کی بیرونی کشیدگیاں بڑھ چکی ہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف ایران کے جوہری منصوبے کو نشانہ بنایا بلکہ اعلیٰ فوجی افسران پر بھی حملے کیے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن میں ایران کے اثر و رسوخ کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے بھی براہِ راست حملوں سے ایران کی بنتی ہوئی ایٹمی طاقت کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ اس سے اندرونِ ملک معاشی بحران مزید شدید ہو گیا ہے۔ بیروزگاری، افراطِ زر، کرنسی کی گراوٹ، اور عالمی پابندیوں نے معیشت کو مفلوج کر دیا ہے۔ ان حالات میں نظام کے اندر بھی دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ خاص طور پر اب جبکہ صدر کے انتخاب کا مرحلہ قریب ہے اور اعلیٰ قیادت میں خلاء محسوس کیا جا رہا ہے، کچھ قوتیں اس خلا کو سیاسی تبدیلی کے ذریعے پر کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔
خارجی دنیا، خاص طور پر اسرائیل، اس موقع کو غنیمت جانتی ہے۔ نتن یاہو جیسے رہنما کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ ایرانی حکومت کا خاتمہ ان کے طویل المدتی مقاصد میں شامل ہے۔ امریکہ کے پالیسی ساز ایران کو کمزور کرنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کر رہے ہیں۔ یورپ میں بیٹھے بعض ایرانی جلاوطن رہنما، جن میں سرِ فہرست رضا شاہ پَہلوی ہیں، خود کو عبوری رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر ان کا ماضی، بیرونی وابستگی، اور عوامی جڑوں کا فقدان انہیں غیر موثر اور غیر معتبر بناتا ہے۔ ایرانی عوام کی بڑی تعداد انہیں ایک پرانی طرز کی، غیر مقبول اور استعماری ذہنیت کا نمائندہ سمجھتی ہے۔
اگر بالفرض، ایران میں موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متبادل کیا ہوگا؟ کیا وہاں کوئی ایسی قیادت موجود ہے جو ملک کو استحکام، وقار اور ترقی کی راہ پر ڈال سکے؟ یا پھر عراق، لیبیا اور شام کی مانند ایران بھی ایک ایسے خانہ جنگی کے دلدل میں جا گرے گا جہاں قومیں گروہوں میں بٹ جاتی ہیں، شہروں کے دروازے ملیشیاؤں کے کنٹرول میں آ جاتے ہیں، اور بیرونی طاقتیں مداخلت کر کے اپنے اپنے مہرے بٹھاتی رہتی ہیں؟ ایران جیسے ملک میں جہاں نسلی، مذہبی اور لسانی تنوع موجود ہے، اگر ریاست کا مرکز کمزور ہو گیا تو قوم بکھر سکتی ہے۔
ایسے کسی انتشار کی صورت میں روس کا کردار بھی غیر معمولی ہوگا۔ روس ایران کو اپنا ایک تزویراتی اتحادی سمجھتا ہے۔ وہ اسے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی کا مرکز بنائے ہوئے ہے۔ اگر ایران میں نظامِ حکومت تبدیل ہوا، تو روس کا ایک بڑا حلیف کمزور پڑ جائے گا۔ روس یہ بات بخوبی جانتا ہے، اسی لیے وہ کسی بھی بیرونی مداخلت کی شدید مخالفت کرے گا، اور ممکن ہے کہ خفیہ طریقوں سے ایران کی موجودہ حکومت کو سہارا بھی دے دے۔ چین بھی ایران کے ساتھ اپنے تجارتی و تیل کے معاہدوں کی حفاظت کی خاطر تبدیلی سے خائف ہوگا۔
یہ سب کچھ ہمیں اس نتیجے کی طرف لے جاتا ہے کہ اگر ایران میں حکومت تبدیل ہوتی ہے، تو وہ محض ایک سیاسی واقعہ نہیں ہوگا، بلکہ ایک علاقائی زلزلہ ہوگا جس کی شدت خلیج سے لے کر قفقاز، اور ایشیا سے لے کر یورپ تک محسوس کی جائے گی۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوں گے، مسلح گروہ ابھریں گے، گروہی خونریزی پھیلے گی، اور مغربی طاقتیں ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی خاک میں اپنا قدم ڈالیں گی۔
لہٰذا، جو لوگ ایران میں ریجیم چینج کو آزادی، خوشحالی اور جمہوریت کا راستہ سمجھتے ہیں، وہ تاریخ سے سبق نہیں لے رہے۔ عراق میں صدام گیا، مگر امن نہ آیا۔ لیبیا میں قذافی مارا گیا، مگر قوم بکھر گئی۔ شام میں بغاوت ہوئی، مگر آج تک جنگ جاری ہے۔ ایران کی تبدیلی بھی اگر بغیر کسی اندرونی شعور اور ٹھوس قیادت کے آئی، تو یہ تبدیلی نہیں، تباہی ہوگی۔ ایسی تباہی جس کا دائرہ صرف تہران تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے لے گا۔
پس، ایران کے مستقبل کے لیے ہمیں جذبات کی نہیں، حکمت کی ضرورت ہے۔ تبدیلی اگر آنی ہے تو وہ ایرانی عوام کے اندر سے، ان کے شعور، ان کی جدوجہد اور ان کی قیادت سے آنی چاہیے، نہ کہ بیرونی حملوں، پابندیوں یا کٹھ پتلی حکومتوں سے۔ اور یہی سچائی ہے جو سمجھنے سے پہلے تاریخ خود کو دہراتی ہے ، اور قومیں پھر ہمیشہ پچھتاتی رہتی ہیں۔
Leave a Reply