Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کیا جرمنی دوبارہ لازمی فوجی خدمت کی طرف بڑھ رہا ہے؟ — خدشات، حقائق اور نوجوانوں کی آواز

Articles , Snippets , / Thursday, November 20th, 2025

rki.news

تحریر: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی

جرمنی میں ایک بار پھر لازمی فوجی خدمت کی بحالی پر سنجیدہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ کئی دہائیاں پہلے ختم کیا جانے والا یہ نظام ایک عرصے تک ماضی کا حصہ سمجھا جاتا رہا، مگر یورپ کے بدلتے ہوئے حالات اور روس–یوکرین جنگ نے پورے خطے کے دفاعی توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے ماحول میں جرمنی کی حکومت نے فوج کی استعداد کار بڑھانے کے لیے نئے قوانین اور انتظامات کی منظوری دے دی ہے، جنہوں نے عوام میں امید و خوف دونوں کو بیدار کر دیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ کسی فوری جنگ کی تیاری نہیں، بلکہ صرف دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک عمل ہے، مگر جرمنی کی تاریخ کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے لوگوں کے ذہن میں خدشات جنم لینا فطری بات ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی نے یورپ کے دفاعی ڈھانچے میں بے یقینی پیدا کر دی ہے۔ نیٹو کے بڑے اور مرکزی رکن کی حیثیت سے جرمنی پر یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی فوج کو ہر قسم کی ہنگامی صورتحال کے لیے تیار رکھے۔ اسی مقصد کے پیش نظر حکومتی اتحاد نے پارلیمنٹ میں ایک اہم قانون کی منظوری دی ہے، جس کے تحت اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام نوجوان مردوں کی ملک گیر سطح پر لازمی طبی جانچ کی جائے گی۔ اگر رضاکارانہ بھرتی ناکام رہی یا مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو سکی تو پارلیمنٹ لازمی فوجی خدمت کا فیصلہ کر سکتی ہے، جس کے لیے انتخاب کا طریقہ قرعہ اندازی بھی ہو سکتا ہے۔ اسی قانون کے مطابق نئے سال کے آغاز سے نوجوان مردوں اور خواتین کو ایک سوالنامہ بھیجا جائے گا، جس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ کون رضاکارانہ طور پر تربیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ خواتین کے لیے یہ عمل لازمی نہیں ہوگا اور وہ اپنی مرضی سے رجسٹریشن کر سکیں گی۔ بھرتی کا باضابطہ عمل موسمِ گرما 2027 سے شروع کیے جانے کا امکان ہے۔

وزیر دفاع بورس پیستوریئس کے مطابق یہ طبی جانچ اور بھرتی کا نیا نظام فوج کی تعداد میں اضافہ کرنے سے زیادہ ایک اسٹریٹجک ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملکی دفاع کی صورتحال میں کن نوجوانوں کو فوج میں شامل کیا جا سکتا ہے اور کس حد تک فوجی استعداد دستیاب ہے۔ پیستوریئس کا ایک بڑا ہدف بُندس ویر کی مجموعی نفری کو تقریباً اسی ہزار سے بڑھا کر دو لاکھ ساٹھ ہزار تک لے جانا ہے۔ ساتھ ہی دو لاکھ ریزرو فوجیوں کی دستیابی بھی اس نئے ڈھانچے کا حصہ ہے، جو کسی بڑے بحران کی صورت میں دفاعی قوت کو مضبوط بنائیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی کے ایک شہر میں وہ فوجی بیرک، جو برسوں سے غیر استعمال شدہ تھا اور جسے عام شہریوں کے لیے سستے فلیٹس میں تبدیل کرنے کی اجازت مل چکی تھی، اچانک واپس فوج کے حوالے ہونے جا رہا ہے۔ شہری انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس منصوبے کو روکا جائے، کیونکہ بُندس ویر کو بیرک کی دوبارہ ضرورت پڑ گئی ہے۔ ایسے واقعات عوام کے ذہنوں میں سوالات پیدا کرتے ہیں کہ آیا ملک واقعی کسی بڑے دفاعی مرحلے کے لیے تیاریاں تو نہیں کر رہا۔ حکومت اس خدشے کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اور بار بار یقین دلاتی ہے کہ یہ تمام اقدامات دفاعی نوعیت کے ہیں، جارحانہ نہیں۔

دوسری جانب نوجوانوں کے تاثرات بہت متنوع ہیں، مگر خوف، بے چینی اور الجھن ان کے بیانات میں واضح محسوس ہوتی ہے۔ برلن کی سترہ سالہ اینٹونیا نے بتایا کہ جب اس نے لازمی فوجی سروس کی ممکنہ واپسی کی خبر سنی تو وہ خوفزدہ ہو گئی۔ اسے لگا کہ جرمنی اس دور میں واپس جا رہا ہے جہاں نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ وہ مانتی ہے کہ جو لوگ بُندس ویر میں جانا چاہتے ہیں، انہیں ضرور جانا چاہیے، مگر کسی کو مجبور کرنا درست نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ جنگ یا لازمی فوجی خدمت کا تصور اس کے اندر خوف پیدا کرتا ہے اور اس کے خیال میں مسئلے کبھی جنگ سے حل نہیں ہوتے۔

فرینکفرٹ کے بارہ سالہ تھیو نے بھی اپنے خیالات میں خوف کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ وہ ابھی اس قانون کے دائرے میں نہیں آتا، مگر وہ کہتا ہے کہ جنگ کا تصور بھی اسے پریشان کر دیتا ہے۔ وہ ترجیح دیتا ہے کہ لازمی فوجی خدمت کے بجائے ایک لازمی سماجی خدمت کا سال متعارف کرایا جائے، جس میں نوجوان دوسروں کی مدد کر سکیں۔ برلن کے پندرہ سالہ روبن کے خیالات اس سے مختلف مگر متوازن ہیں۔ وہ فوجی تربیت کے کچھ فوائد دیکھتا ہے—نئے تجربات، تھوڑی آمدنی، ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا موقع—مگر ساتھ ہی یہ سوچ بھی اسے پریشان کرتی ہے کہ کہیں اسے ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہ کر دیا جائے۔

پوٹسڈام کے پندرہ سالہ میکا کا نقطۂ نظر کافی حقیقت پسندانہ ہے۔ اس کے مطابق روس سے خطرہ واقعی حقیقی ہے، اس لیے ریاست کو دفاعی تیاری کرنا ہی پڑے گی۔ مگر اس کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اس فیصلے کے اثرات نوجوانوں پر پڑتے ہیں، جبکہ بحث زیادہ تر بڑی عمر کے سیاست دان کرتے ہیں۔ وہ رضاکارانہ ماڈل کو غیر حقیقی سمجھتا ہے اور قرعہ اندازی کے طریقے کو غیر منصفانہ۔ اس کا ماننا ہے کہ ہر شہری کو کسی نہ کسی شکل میں ملک کی خدمت کرنی چاہیے، چاہے وہ فوجی ہو یا سویلین۔ وہ خود بھی سویلین سروس کا انتخاب کرے گا، کیونکہ اس کے خیال میں بغیر ہتھیار اٹھائے بھی ملک کے لیے مثبت کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔

یہ سب آراء اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ جرمنی ایک ایسے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں دفاعی ضرورتیں اور سماجی احساسات ایک دوسرے کے مقابل کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومتی یقین دہانیاں اپنی جگہ ہیں کہ یہ کوئی جنگی قدم نہیں بلکہ محض ایک دفاعی حکمتِ عملی ہے، مگر عوام کے ذہنوں میں ماضی کی گونج اب بھی موجود ہے۔ وقت کے ساتھ ہی واضح ہو سکے گا کہ یہ اقدامات واقعی یورپ میں امن کے تحفظ کا ذریعہ بنتے ہیں یا ایک نئی معاشرتی بحث کو جنم دیتے ہیں۔ فی الحال صرف یہ امید باقی ہے کہ جرمنی کے فیصلے حقیقی معنوں میں امن اور سلامتی کے لیے ہوں، نہ کہ تاریخ کے کسی نئے باب کا پیش خیمہ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International