Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کیا روس شکست کے قریب پہنچ چکا ہے؟

Articles , Snippets , / Tuesday, February 11th, 2025

تحریر: اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmal.com

کیا روس شکست قریب پہنچ چکا ہے؟یہ ایک سوال ہے جو مختلف اذہان میں اٹھ رہا ہےکیونکہ ماضی میں روس کا اتحاد تحلیل ہو گیا تھا۔ایک وقت تھا جب روس عالمی طور پر سپر پاور تسلیم کیا جاتا تھااور امریکہ کا ایک طاقتور دشمن تھا۔سائنسی لحاظ سے بھی عالمی پوزیشن پر تھااور دفاعی و اقتصادی لحاظ سے بھی بہت ہی آگے تھا۔روس نے افغانستان کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور یہ جنگ نو سال تک لڑی جاتی رہی۔افغانستان کا ساتھ کئی ممالک نے دیا۔اس وقت امریکہ اور روس کےدرمیان سرد جنگ جاری تھی۔دونوں ممالک ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیےایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔اس جنگ کو جہاد کا نام دیا گیا اور دنیا بھر سےاسلامی مجاہدین روس کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان پہنچ گئے۔سی ائی اے نے بھی روس کو شکست دینے کے لیےپورا زور لگایا اور اتحادیوں نے بھی مجاہدین کی بھرپور مدد کی،جس کے نتیجے میں روس اپنی بہتر پوزیشن کھو بیٹھا اور جو مختلف ریاستوں کا اتحاد تھا،وہ اتحاد تحلیل ہو گیا۔اس جنگ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی گئی۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے باوجود بھی روس ابھی بھی مضبوط پوزیشن پر موجود ہے۔امریکہ اور کئی دوسرے ممالک سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ممکن ہے کہ اب وہ پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے،کیونکہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نےروس کو ٹھیک ٹھاک معاشی دھچکاپہنچادیا ہے۔یہ جنگ جاری ہوئے تین سال ہو چکے ہیں اور اب بھی کتنا عرصہ جاری رہتی ہے،کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ممکن ہے یہ کئی سالوں تک جاری رہے۔اس جنگ میں روسی اور یوکرینی فوجیوں کے علاوہ سویلن آبادی بھی متاثر ہوئی اور 60 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمی بھی ہیں۔جنگ ہمیشہ بربادی لاتی ہےاور یہ جنگ بھی بربادی میں اضافہ کر رہی ہے۔یوکرین میں بے تحاشہ بمباری کی گئی ہے اور شہر کے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔اس جنگ کے اثرات عالمی طور پر بھی محسوس کیےجارہے ہیں۔روس معاشی طور پر تیزی سے کمزور ہو رہا ہےاور اس کی کمزوری کی وجہ یہی ہے کہ وہ جنگ پر بے تحاشہ سرمایہ خرچ کر رہا ہے۔اس جنگ کی وجہ سےیوکرین بھی سخت مشکل میں گھرا ہوا ہے،اگر جنگ کا اختتام بھی ہو گیا تو کئی برسوں تک یوکرین کی تعمیر نو ہوتی رہے گی۔اتحادیوں کی مدد نےیوکرین کو سنبھالا ہوا ہےاور اس بات کا امکان ہے کہ مستقبل میں وہ ہاتھ کھینچ لیں۔اگر مدد رک گئی تو یوکرین شکست کھانے پر مجبور ہو جائے گا۔
روس اور یوکرین جنگ بین الاقوامی تناظر میں دیکھی جا رہی ہے،کیونکہ اس کے اثرات معیشت پر بھی پڑرہے ہیں۔روس کی معیشت کا سب سے بڑا دارومدار تیل پر ہے۔تیل کی فروخت کم یا رک جائےتو روس بہت بڑے بحران کا شکار ہو جائے گا۔اس جنگ کو اب روکنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں،لیکن ماضی میں کوئی خاص سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کر دیا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ رکنے والی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی ویب سائٹ ایکس(ٹوئٹر) پر لکھا کہ اس جنگ نے روسی معیشت کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔روسی صدر کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر روس نے جنگ نہ روکی تو روس پر مزید ٹیرف عائد کریں گےاور مزید پابندیاں بھی لگا دیں گے۔روسی صدر پیوٹن نے بھی مثبت جواب دیا کہ ہم ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیں،لیکن یوکرین کے صدر انکاری ہیں۔روسی صدر نے امریکی صدر کی تعریف بھی کی۔ٹرمپ نےاس بات کا دعوی کیا کہ اوپیک اور وہ ممالک جو تیل فروخت کر رہے ہیں وہ بھی اس جنگ میں شامل ہیں کیونکہ مہنگےتیل کی فروخت سے روس کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔تیل کی قیمتیں اگر کم ہو جاتی ہیں توروس جنگ کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔کچھ عرصہ قبل تک یورپ کو روس گیس فروخت کر رہا تھا لیکن اب وہ معاہدہ بھی ختم ہو چکا ہے۔امریکی صدر اپنی الیکشن مہم کے دوران بھی اس جنگ کاذکر کیا اور اس بات کا اعادہ کیاتھاکہ روس اور یوکرین جنگ کو روکا جائے گا۔روس اگر جنگ روکنے کے لیےتیار ہے تو یوکرین کو بھی مثبت جواب دینا چاہیے تاکہ مزید بربادی رک سکے۔
سوال یہ ہے کہ کیا روس شکست کے قریب پہنچ چکا ہے؟ابھی تک روس اس حد تک نہیں پہنچا کہ روس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے۔روس کم از کم ابھی تک یہ تاثر دینے میں کامیاب ہے کہ وہ اب بھی مضبوط ہے اور دنیا کی کسی طاقت کا بھی مقابلہ آسانی سے کر سکتا ہے۔روس نے یوکرین کے ساتھ جنگ اس وقت چھیڑی تھی جب دنیا کرونا وبا سے متاثر تھی۔کرونا وبا کے اثرات سے روس بھی لازما متاثر ہوا تھا لیکن جنگ شروع کر دی۔اب اگرروس تیل فروخت کرنے میں ناکام ہو جائےتو معاشی لحاظ سےڈیفالٹ ہو سکتا ہےاور ڈیفالٹر روس باآسانی مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔روسی صدر اگر جنگ کو روکنے کے لیےدلچسپی لے رہے ہیں تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ روس اپنی سلامتی کے خطرے سے دوچار ہو چکا ہو۔ممکن ہے کے اندرونی پریشر کے زیر اثر وہ جنگ روک رہے ہوں توبھی بہتر فیصلہ کر رہے ہیں۔ماضی میں روسی صدر ایٹمی استعمال کا ارادہ بھی ظاہر کر چکے ہیں،اگر روس ایٹم بم کا استعمال کرتا ہےتو پورا خطہ تباہی کے دہانے سے دوچار ہو سکتا ہے۔اس جنگ کو دیکھا جا رہا ہے کہ بعد میں اس کے کیا اثرات ہوں گے؟روس جتنی تباہی یوکرین کی کر چکا ہے،اس کا ازالہ کس طرح ہوگا؟60 فیصد سے زیادہ یوکرین کی انسانی آبادی شدید متاثر ہو چکی ہے۔شہر کے شہر جو تباہی کے مناظر پیش کر رہے ہیں ان کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ کس سے لیا جائے گا؟بین الاقوامی امداد کتنی آئے گی اور کس طرح آئے گی،اس کے بارے میں بھی بعد میں فیصلے ہوں گے،لیکن کیا روس اس بات پر تیار ہو جائے گا کہ وہ ہرجانہ دے؟اگر اس جنگ کو روکنے کے لیےمزید کوششیں نہ کی گئیں تو اس کے اثرات عالمی برادری کے لیےخاصے خطرناک ہوں گے۔مشرق وسطی سمیت جہاں بھی جنگیں جاری ہیں ان کو رکنا چاہیےتاکہ مذید بربادی سے بچا جا سکے۔روس کو بھی اس بات کا اچھی طرح ادراک ہےکہ امریکہ اب خود بھی تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہےاور اپنی معیشت آسانی سے سنبھال سکتا ہے۔ہو سکتا ہےیہ جنگ ابھی تک نہ رکے اور چند ماہ یا کچھ عرصہ بعدتک جاری رہےتو اس کے نتائج روس کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔روس کی لڑکھڑاتی معیشت مزید دباؤ برداشت نہ کر سکےگی۔روسی قوم بھی اس جنگ سےتنگ آچکی ہوگی کیونکہ قوم کا بھی نقصان ہو رہا ہے۔امریکی صدر اگر جنگ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس بات کو سنجیدگی سےپایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔عالمی برادری بھی اپنا کردار ادا کرےکیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ کہیں جوہری قوت کا استعمال نہ ہو جائے۔جوہری قوت دنیا کا تو نقصان کرے گی، روس کو خود بھی شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہو سکتا ہے کہ روس کمزور ہو کر شکست کھا جائےتو یہ روس کے لیے بدترین سبق ہوگا۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ روس مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے اور یہ تقسیم اس کی سلامتی پر شدید اثرات ڈالے گی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International