rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیدحیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
شاید غالب کا یہ شعر پاکستان میں ہر اس شخص نے ازبر کیا ہوا ہے، جس کے پاس تھوڑی سی بھی طاقت ہے۔ اب چاہے وہ طاقت بزور پیسہ حاصل کی ہے یا بزور کرسی حاصل کی ہے۔ سو اس شعر کے مصداق پاکستان کے عام آدمی کو یہ صاحب حیثیت افراد یہ یاد کرواتے رہتے ہیں، کہ جناب موت سے پہلے غم سے نجات کا تصور کہانیوں میں تو آپ کو مل سکتا ہے، لیکن کھلی آنکھوں خواب دیکھنے سے نہیں مل سکتا۔ ہر مہینے بجلی، گیس، پانی، ٹیلیفون کے بل ملتے ہی عام آدمی گنگنانے لگتا ہے، ‘ بل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اٹھا ‘، اور بغور تمام بلز کو دیکھتے ہوئے سوچتا ہے، کہ اپنی قلیل تنخواہ سے یہ سارے بل ادا کرنے کے بعد ‘ہم نے یہ مانا کہ بل ادا کر دیں مگر، کھائیں گے کیا ‘ ۔ ویسے بھی فیض صاحب کمال خوبصورتی سے فرما گئے ہیں، ‘ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ‘، لگتا ہے یہ مصرعہ بھی فیض صاحب نے ماہانہ بلز دیکھتے ہوئے ہی ضبط تحریر کیا تھا۔ اب ایک عام آدمی بھی یہ جان چکا ہے کہ محبت کے ساتھ ساتھ دیگر تمام غم بھی کافی جان لیوا ہیں۔حضرت غالب تو یہ فرما کر بری الذمہ ہو گئے تھے کہ ‘مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں’، مگر پاکستان کا ہر شہری ان مشکلوں کے آسان ہونے کی امید میں مزید مشکلیں سہنے کی کیفیات میں مبتلا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بلز سے جیسے تیسے جان چھڑا بھی لی جائے تو ان کی ادائیگیوں کے بعد گھر کی بنیادی چیزیں دانت نکال کر کاٹنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ ہمارے تاجر بھی نظر نہ لگ جائے اتنے ہوشیار ہیں، کہ ہر ماہ اگر ایک چیز کے نرخ کم کرتے ہیں تو دوسری چیز کے نرخ بڑھا دیتے ہیں، تاکہ سب مل بانٹ کر عوام کی کھال اتار سکیں۔ کبھی چینی مہنگی کر دیتے ہیں تو کبھی گھی، کبھی نزلہ گوشت پر گرتا ہے تو کبھی پیاز پر، کبھی ٹماٹر غضبناک ہو جاتا ہے تو کبھی سیب۔ الغرض ہر بار عوام کے زخموں پر نمک لگانے کی تیاری پوری پلاننگ سے کی جاتی ہے۔ عوام بیچاری ‘کچھ مزہ تو جینے کا اس ستم میں رکھا ہے ‘ کہتے ہوئے ستم سہے جاتی ہے۔
اقبال بھی ان حالات پر امید کی شمع روشن کرتے ہوئے یہ کہہ گئے تھے کہ، ‘ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ’، لیکن پاکستانی عوام تو ہر 5 سال بعد نئی بہار کی امید میں آتی بہار دیکھ کر یہی کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ، ‘ یہ وہ بہار نہیں جس کا ہم سے وعدہ تھا ‘۔ حکومتوں کا کام عام آدمی کی زندگیوں میں آسانیاں کرنا ہوتا ہے، اس کے لئے وہ دفاتر میں عوامی خدمتگار کے نام پر سرکاری کرم چاری بھرتی کرتی ہے، لیکن یہاں ہمارے سرکاری دفاتر میں سرکاری کرم چاری یوں دفتر آتے ہیں، جیسے وہ عوامی خادم نہیں بلکہ نواب کے عہدے پر فائز کر دئیے گئے ہوں، اور جن کے خادم بنا کر ان کو بھیجا جاتا ہے ان پر یوں حکومت کرنا شروع کرتے ہیں جیسے محبوب اپنے عاشق کے دل کے تخت پر براجمان ہو کر عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ شاہراہوں پر متعین ٹریفک پولیس سواریوں سے زیادہ سوار پر نظر رکھتی ہے، کہ کون سا مرغا آسانی سے حلال ہو سکتا ہے۔ یوں دن میں کئی مرغے حلال کر کے ہنسی خوشی اپنی ملازمت حلال کرتی نظر اتی رہتی ہے۔ غرض ایک عام آدمی روز مرہ ہزاروں پریشانیوں سے جھوجھتا اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹنے پر مجبور ہے۔ وہ حیران ہے کہ آخر اس نفسا نفسی کے دور کا گلہ کس سے کرے؟۔ وہ سوچتا رہتا ہے کہ ‘کس کو سناؤں حال دل بے قرار کا ‘۔ کہیں بھی تو شنوائی کا در وا نہیں ہے۔ ہمیں عام طور پر مثالیں تو ان ترقی یافتہ ممالک کی دی جاتی ہیں جہاں ہر شہری کی زندگی قیمتی ہے۔ کام سے کوتاہی پر ہر کرم چاری سے بازپرس ہوتی ہے، لیکن جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں ایک عام شہری کی زندگی صرف چند لفظوں کی محتاج نظر آتی ہے، ‘جو تمہارے پاس ہے نکال دو ورنہ گولی مار دوں گا’، اور جو کچھ پاس ہے وہ اس نے کتنی محنت سے کمایا ہے یہ سوچنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ انکار کی صورت میں قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو سکتا ہے اور انصاف کے لئے روز جزا کا انتظار کرنے کی تلقین۔ لواحقین کو صبر کرنے کا کہتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ﷲ کو یہی منظور تھا۔ یہ سب کہتے ہوئے شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی ﷲ نے فرمایا ہے کہ حکمرانوں سے ایک ایک چیز کا مکمل حساب لیا جائے گا۔
آخر یہی سوچ ابھرتی ہے کہ اس درد کی دوا نہیں ہے؟ کیا یہ مرض لا علاج ہے؟ نہیں یہ مرض لا علاج نہیں ہے۔ یہ دین سے دوری کا شاخسانہ ہے۔ جب یہاں ہر شخص دنیا کمانے نکلا ہوا ہے، تو وہ اپنی حاصل کردہ طاقت بھی دنیا کمانے میں خرچ کر رہا ہے، جبکہ یہ طاقت تو وہ امتحان ہے جو ﷲ ان کا لے رہا ہے۔ دنیا کماتے کماتے اس امتحان میں فیل ہونے پر جو سزائیں وعید ہیں، اس کا تصور کر لیا جائے تو انسان سدھر سکتا ہے۔ دنیاوی خواہشوں نے آنکھوں پر پٹی تو باندھ دی ہے، لیکن یاد رکھیں مظلوم کی دل سے نکلی آہ جب عرش تک پہنچتی ہے اس کا تصور محال ہے۔
عام آدمی کے حالات زندگی بد سے بدتر ہو جانے کے تجزیے تو روزانہ اخبارات و سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں، حکومتی وعدے بھی انہی اخبارات و سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہتے ہیں، لیکن پھر بھی امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر کیوں ہو رہا ہے؟ دریائے فرات کے کنارے بھوکے کتے کی بھوک کا احساس کرنے والے حکمران کی مثالیں دینے والے انسانوں کی بھوک پر بھی بے حس کیسے رہ پاتے ہیں؟
غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر
کیا واقعی ہمارے صاحب اختیار ایک عام شہری کے حالات سے واقف ہیں؟ بقول شاعر ۔۔۔۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
Leave a Reply