Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کینسر زدہ معاشرہ۔۔  علاج کیجیے یا پرہیز

Articles , Snippets , / Tuesday, September 23rd, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب یہ بات ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں، کہ مرض کینسر کی جتنی جلدی تشخیص ہو جائے، اتنا ہی سہولت سے علاج ہونے اور کینسر سے جلد نجات پا جانے کے چانسز زیادہ بہتر ہوتے ہیں، لیکن جتنی تاخیر ہوتی جاتی ہے اتنے ہی کینسر سے چھٹکارہ پانے کے چانسز کم ہوتے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دوران علاج تکلیف کا عنصر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کینسر ، تشخیص ہونے سے لے کر علاج اور پھر کیمیو کے پہنچنے تک مریض کا حلیہ یکسر ہی بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ ایک بالکل نیا انجان چہرہ سامنے آتا جاتا ہے، بالکل ایسے جیسے جب چاند کو گرہن لگ رہا ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ چاند کا سنہرا روشن چہرہ بجھنے لگتا ہے، جو بجھتے بجھتے بس ایک ہیولا سا محسوس ہونے لگتا ہے، یہاں تک کے سوچ یہاں مرکوز ہو جاتی ہے کہ آخر چاند کہیں موجود ہے یا کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ ایک منزل تک پہنچ کر یہ گرہن ہٹنے لگتا ہے، یہ کینسر چاند کو چھوڑ کر جانے لگتا ہے۔ جہاں سے لوٹنے پر مکمل روشن چہرہ چاند کو واپس مل جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے کینسر کے مریض کو امید ہوتی ہے کہ کیمیو سے اس کی زندگی کا بجھتا چراغ پھر سے اس کی روشن سویرے سے ملاقات کروا دے گا۔ اس امید پر وہ یہ سب درد، سب تکالیف  ہنسی خوشی برداشت کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک سبق ہے کہ رگ جاں میں اترنے والا  اتنا ہولناک درد بھی ایک امید اور یقین کے سہارے برداشت کیا جا سکتا ہے۔
کسی انسانی جسم ہی کی طرح، اگر کوئی معاشرہ کینسر کے مرض میں مبتلاء ہو جائے تو کیا وہ بنا علاج ، بنا کیمیو کے دوبارہ اپنی اصلی حالت میں واپس آ سکتا ہے؟ اس کا جواب کھوجنے نکلیں تو ہر ایک فلسفی کے پاس صرف ایک ہی جواب ہو گا  اور وہ جواب ایک ہی ہو سکتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ۔
درد ہو جسم میں دوا کیجئے
درد ہی جسم ہو تو کیا کیجئے
دنیا میں آئے بڑے بڑے انقلابات زمانہ کی تاریخ چھان لیجئے، ایک بات مشترک ضرور ملے گی، کہ انقلاب آنے سے پہلے وہ معاشرہ کینسر زدہ ہو چکا تھا، اور بنا کیمیو کے ٹھیک ہونے کو تیار ہی نہیں تھا، پھر چند سرفروشوں نے معاشرے سے اس کینسر کو دور کرنے کی ٹھانی۔ یہ ماہر سرجنز ایک بڑی سرجری کرنے کے بعد، جس میں ہر طرف خون کی ندیاں بہہ گئیں معاشرے کو کینسر سے نجات دلانے میں کامیاب ہو پائے۔
اگر ہم اپنے معاشرے کو غور سے دیکھیں تو ایک سوال ہمارے ذہن میں ضرور ابھرتا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے کو بھی کینسر کا مرض لگ چکا ہے؟ کیا ہم اب بھی اس حقیقت سے انکار کر رہے ہیں کہ ہم کینسر زدہ ہو چکے ہیں؟ کیا ہم اب بھی سب ٹھیک ہے کہ گردان کر کے خود کو تسلیاں دے رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر معاشرے میں سب ٹھیک ہے، تو آئے دن جرائم میں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں وائٹ کالر کرائم کرنے والے ہوں یا بنا کالر کے کرائم کرنے والے، ہر دو کرائم اب ببانگ دھل ہو رہے ہیں۔ ان جرائم کو روکنے کے ذمہ دار اشخاص بھی  اب ببانگ دھل اپنی بولیاں لگا کر اپنی زبان اور ہاتھ گروی رکھ رہے ہیں ۔ نہ ان جرائم کرنے والوں کو کچھ بولتے ہیں، اور نہ ہی مجرموں کو پکڑتے ہیں۔ اگر پکڑ بھی لیتے ہیں تو پھر بقول دلاور فگار
رشوت لے کر پھنس گیا ہے
رشوت دے کر چھوٹ جا
کے فارمولے پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے۔ جس پر عمل کر کے اپنی جان کی گلو خلاصی کروا لی جاتی ہے۔ معاشرے میں اب انسانوں سے زیادہ ہر طرف تاجر حضرات نظر آنے لگے ہیں۔ ہر طرف منفیاں لگی ہوئی ہیں اور ہر طرف خریدنے اور بیچنے والوں کے درمیان بولیاں لگ رہی ہیں۔  اب کوئی پوچھ بیٹھے کہ جناب سرکاری دفاتر میں کام کرنے کے لئے رشوت کی طلب کیوں ہو رہی ہے،  تو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے کہ بولنے سے پہلے تولنے کی تلقین یاد کر لینی چاہئیے۔ ویسے بھی بنا تولے بولنے کی سزا میں آپ مزید بولنے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ معاشرے میں چاروں  طرف نظر دوڑانے سے یہ حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے گی کہ معاشرے میں اب تعلیم کاروبار ہے تو صحت بھی کاروبار ہے۔ عوام کو دی جانے والی سہولیات ایک کاروبار ہے، تو نوکری کا حصول  ایک الگ کاروبار ہے۔ ہر چوراہے پر مانگنے کا کاروبار ہے، تو سرکاری دفاتر میں کام کرنے کے لئے لگا نرخ کاروبار ہے۔ عوام کو حکومتی سطح پر ان تاجروں کے ہاتھوں یرغمال بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیا اب بھی ان باتوں سے کوئی اندازہ نہیں لگ رہا کہ اس ملک کو پیسے کا کینسر لگ چکا ہے۔ جاہ و حشم کا کینسر لگ چکا ہے، کرسی کے نشہ کا کینسر لگ چکا ہے، ناجائز طریقے سے اپنا کام نکلوانے کا کینسر لگ چکا ہے۔ ابھی یہ کینسر ابتدائی مراحل میں ہے۔ علاج آسانی سے ممکن ہے، لیکن اس معاشرے میں پھیلتے کینسر کی طرف سے صرف نظر کر کے، کہیں ہم اس کینسر کو معاشرے میں پھلنے پھولنے کا موقع تو نہیں دے رہے۔ اگر یہ کینسر اسی طرح پھولتا رہا تو پھر علاج بھی بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا جائے گا ۔کیمیو کی تکلیف سے گزرتے ہوئے پھر معاشرے کا چہرہ گہناتا چلا جائے گا، اور اصلی سنہری چمکدار صورت واپس آنے تک ایک بڑی سرجری میں کافی خون کی ضرورت پڑے گی۔ کیا یہ قوم خون کی اتنی بوتلیں عطیہ کرنے کو تیار ہے، یا کینسر زدہ معاشرے میں جینے کو ہی اپنا مقدر سمجھ کر ظلم سہنے کو تیار رہنا چاہتی ہے۔
اس کینسر کا اک علاج آسان بھی ہے، اور وہ علاج ہے پرہیز کرنا۔ ہم پڑھتے آئے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے۔ اس لئے پرہیز اختیار کیجئے۔ ناجائز دولت اکھٹی کرنے سے پرہیز، صحت کو تجارت بنانے سے پرہیز ، تعلیم کو زر کے آگے جھکنے پر مجبور کرنے سے پرہیز ، سرکاری دفاتر میں فائلوں کے پیٹ بھرنے سے زیادہ اپنے پیٹ بھرنے سے پرہیز ۔ حرام کا لقمہ منہ میں لے جانے سے پرہیز ۔ دین کے اصولوں سے روگردانی کرنے سے پرہیز ۔ ابھی ابتداء ہے پرہیز سے علاج ممکن ہے۔ اب معاشرے کے کرتا دہرتاوں پر ہے، وہ چاہے پرہیز کریں یا علاج کریں، مگر ابھی فوری توجہ ضرور دے دیں۔ وگرنہ مرض کے علاج میں تاخیر ہمیشہ تلخ تجربات سے سبق سکھاتی ہے ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International