ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
rachitrali@gmail.com
نیل کھیت ایک جذباتی اور مہم جوئی پر مبنی ناول ہے ہے جس کا محور عاویز نامی ایک نوجوان ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) جاتا ہے اور وہاں اس کی ملاقات سلینا چوہدری سے ہوتی ہے، جس سے اس کا تعلق عشق میں بدل جاتا ہے۔ سیاسی افراتفری کے دوران وہ پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کرتا ہے اور جنگ کے حالات میں مشرقی پاکستان میں اپنی خدمات سر انجام دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ عاویز کی داستان میں نہ صرف جنگ کے مصائب اور جغرافیائی تقسیم کا درد محسوس ہوتا ہے بلکہ انسان کے جذبات اور تعلقات کی پیچیدگیاں بھی عیاں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر شعیب عتیق خان لکھتے ہیں:
“نیل کھیت” کے مصنف کو مشرقی پاکستان کے معاشرے کی تمام حرکیات پر گہری نظر ہے۔ انڈیا (بہار) سے جانے والے مہاجر مقامی بنگالیوں میں جذب نہ ہو سکے۔ مقامی بنگالیوں اور بہار سے ہجرت کر کے آنے والوں میں نا پسندیدگی کا تناؤ بڑھتا رہا اور اور اس آفاقی سچ کو ناول نگار نے
خوبصورتی سے پیش کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:آخر ایک دن بنگالیوں کے دل میں بہاریوں کے خلاف نفرت کی سلگتی ہوئی چنگاری موقع پاتے ہی خوفناک شعلوں میں بھڑک اٹھی اور بہاری لٹ گئے۔ صرف مسلمان ہونا بہاریوں کے کام نہ آسکا”۔
ناول نیل کھیت کا موضوع قومی وحدت، قربانی، اور جذباتی وابستگی پر مبنی بہترین کہانی ہے۔ ناول کے مرکزی خیال میں اس بات کا اظہار ہے کہ کس طرح جنگ اور سیاسی حالات انسان کے جذبات، تعلقات، اور مستقبل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے ذریعے مصنف نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کی زندگیوں اور ان کے جذبات کو نمایاں کیا ہے۔ جنگ کی تکالیف، وطن سے محبت، اور ایک انسان کی جذباتی آزمائش اس ناول کا بنیادی موضوع ہے۔ڈاکٹر شعیب عتیق خان رقمطراز ہیں:
“ڈھا کہ میں ایک چھوٹی سی من موہنی سڑک ہے جسے نیل کھیت روڈ کہتے ہیں۔ دونوں جانب سے شاید شیر شاہ سوری کے زمانے کے سایہ دار درختوں میں گھری نیل کھیت روڈ دو بڑی سڑکوں کو ملاتی ہے۔ سنا ہے ماضی میں یہاں نیل کے پودوں کے کھیت ہوا کرتے تھے تو ان کی یاد میں اب بھی یہ علاقہ نیل کھیت کہلاتا ہے۔ گم گشتہ خوبصورت ماضی، خوبصورت درختوں میں گھری، اور خوبصورت نام والی اس تمام کی تمام سڑک کے دونوں جانب ڈھاکہ یونیورسٹی واقع ہے”۔
مصنف نے ناول کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے قارئین کو عاویز کی زندگی کے مختلف مراحل سے آشنا کروانے کی کوشش کی ہے۔ ابتدا میں عاویز کی زندگی کے تعلیمی اور جذباتی سفر کو بیان کیا گیا ہے، جس کے بعد جنگ کے حالات اور اس کے فیصلے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ناول کی ساخت کہانی کو مرحلہ وار انداز میں بیان کرتی ہے، جس سے کہانی کی ترتیب اور شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیل کھیت میں پنجاب اور مشرقی پاکستان کی ثقافتوں کے تقابلی جائزے کے ساتھ جنگ کے مناظر اور حالات کو بھی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شعیب لکھتے ہیں:
“ناول نگار کی مشرقی پاکستان کی سرزمین کے ساتھ والہانہ محبت کو دیکھیں ناول کی پوری کہانی کا ہر کردار، ہر واقعہ ایک استعارہ ہے۔ اگر عاویز خود مغربی پاکستان کا استعارہ ہے تو سلینا چودھری مشرقی پاکستان کا استعارہ ہے۔ اسی طرح سیٹھ مہندرا باسو بھارت کا استعارہ ہے۔ سلینا کا اغوا ہونے کے بعد سیٹھ مہندرا باسو کے ہاتھوں میں چلے جانا دراصل مشرقی پاکستان کا اغوا ہے۔ سلینا چودھری کی بازیابی دراصل بنگلہ دیش کی بھارت کے عارضی قبضے سے رہائی ہے۔ عاویز سلینا کی بازیابی کے بعد اس کو اپنے ساتھ مغربی پاکستان نہیں لاسکتا جبکہ حالات کے جبر کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں اپنے اپنے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں”
مصنف نے اس ناول میں مختلف ادبی تکنیکوں کا استعمال کیا ہے، جن میں تمثیل، مکالمہ نگاری، اور تخیلاتی منظرکشی شامل ہیں۔ ناول میں استعمال ہونے والے مکالمے کرداروں کے جذبات اور حالات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ناول کے مختلف مقامات پر علامتوں اور تشبیہوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو کہانی میں شدت اور معنویت کو بڑھا دیتے ہیں۔ مثلاً، عاویز کا مشرقی پاکستان جانا اور وہاں جنگ میں شامل ہونا ایک علامت ہے اس کی قربانی اور محبت کا، جو اپنی قوم اور سرزمین کے لئے دی گئی ہے۔
ناول نیل کھیت کا تفصیلی جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مصنف نے کہانی کے پس منظر میں پاکستان کی تقسیم اور اس کے اثرات کو نہایت گہرائی سے بیان کیا ہے۔ ناول میں جنگ کے مناظر اور عاویز کی جذباتی جدوجہد ایک نمایاں عنصر کے طور پر ہمارے سامنے ہیں، جن سے قاری کو حقیقی درد اور جذبات کا احساس ہوتا ہے۔ مصنف نے نہایت مہارت سے انفرادی تجربات کو قومی مسائل کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے اور ایک ایسی کہانی تشکیل دی ہے جو قارئین کو اپنے گرفت میں لے لیتی ہے۔ عاویز کا کردار اس بات کا مظہر ہے کہ کس طرح ایک فرد اپنی زندگی کی اہم ترین لمحات کو قومی بحران میں قربان کر دیتا ہے۔
کیپٹن (ر) بشیر احمد خان عباسی خانپور ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں بی اے (آنرز) کے لئے گئے۔ ملکی سیاسی حالات کے باعث وہ فوج میں شامل ہوئے اور ۱۹۷۱ کی جنگ میں شامل ہو کر زخمی ہو گئے۔ آرمی سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی علاقے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ناول نیل کھیت کے ذریعے انہوں نے اپنے تجربات اور محسوسات کو ایک حقیقت پسندانہ اور جذباتی داستان کی صورت میں پیش کیا ہے، جو نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ قاری کے لئے ایک اہم سبق بھی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ناول نیل کھیت ایک منفرد اور دل کو چھو جانے والا ناول ہے، جو تاریخ، جذبات، اور حقیقت پسندی کے امتزاج سے عبارت ہے۔ یہ ناول قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسان کی زندگی میں محبت، جنگ، اور وفاداری کے کیا معنی ہیں اور یہ کس طرح زندگی کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ کیپٹن (ر) بشیر احمد خان عباسی کی اس کتاب کو قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے خوبصورت ٹائٹل کے ہارڈ بائنڈنگ میں شائع کیا ہے۔ یہ ناول مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے عین پہلے کی ڈھاکہ یونیورسٹی اور 1971 کی مشرقی پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ میں اس تاریخی ناول کی اشاعت پر مصنف اور علامہ عبدالستار عاصم دونوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر رحمت عزیز خان صاحب، آ پ انتہائی پر مغز، بے لاگ اور باریک بینی سے سے کیے ہوئے تجزیے کا انداز بیان لطف آ میز ہے- یہ ایک استاد کی لکھی ہوئی تحریر ہے- مجھے پر مسرت لمحات عطا کرنے کا شکریہ –