مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر
جنگل میں طویل معرکہ کے بعدشیروں نے گدھے کا بچہ شکار کر کے اپنے گول میں لے گئے تو گدھا کافی زخمی تھا۔ایک بوڑھے شیر نے تجویز دی کہ اسے مزید مارا نہ جائے بلکہ اس کا علاج کر کے اپنے پاس رکھ کر پال پوس کر اسے بڑا کیا جائے،ہو سکتا ہے یہ بڑا ہو کر ہمارے کسی بڑے کام آسکے۔اور ہمارے لئے بہتر فائدہ مند ہو۔
بوڑھے شیر کی بات مان لی گئی،شیروں نے گویا اسے گود لے لیا وہ گدھے کا ہر ممکن خیال رکھتے حتیٰ کہ وہ گدھا بڑا ہو گیا اور شیروں کا وفادار گدھا بن گیا۔ایک روز اسی بوڑھے شیر نے کہا کہ اب اس وفادار گدھے کو واپس اپنی ہمراہی میں دیگر گدھوں میں جا کر چھوڑ دیا جائے۔شیروں نے ایسا ہی کیا اس وفادار گدھے کو اپنی ہمراہی میں گدھا برادری کے سپرد کر دیا لیکن ساتھ مین یہ اعلان بھی کیا کہ
”خبردار اگر تم نے اس گدھے کو کچھ کہا کیونکہ اب یہ ہمارا حمائے یافتی،وفاداراور نمائندہ ہے“یہ سنتے ہی باقی تمام گدھوں نے اسے اپنا سردار مان لیا کیونکہ اسے شیروں کی حمائت حاصل تھی،اس وجہ سے باقی گدھے اس کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے اور ہر حکم کی تعمیل بنا لانا اپنا فرضِ اولین سمجھتے تھے۔اب جو گدھا بھی سردار گدھے کی حکم عدولی کرتا اسے پکڑ کر شیروں کے پاس لے جاتے اور شیر انہیں چیر پھاڑ کر آرام سے پیٹ کا ایندھن بجھاتے۔گدھا پھر اپنے ساتھیوں میں آکر شیروں کا نمائندہ بن کر سردار بن جاتا۔اس طرح گدھوں کو ایک سردار مل گیا اور شیروں کو شکار۔
جہاں تک سردار گدھے کی بات ہے وہ گدھوں میں ہوتا تو شیر اور شیروں میں ہوتا تو گدھا۔
کہنے کو یہ ایک کہانی ہے لیکن بنظر عمیق دیکھیں تو اس کہانی میں ہزار داستانیں مضمر ہیں،دنیا میں وہی حکمران لمبے عرصہ کے لئے اقتدار میں رہے جنہوں نے اپنی حکمرانی کے لئے ایسے گدھے پالے رکھے،اگر صرف نکولو میکاولی کی کتاب ”دی پرنس“کا ہی مطالعہ کرلیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اندازِ حکمرانی جابرانہ،مکارانہ اور عیارانہ نہ ہو تو عوام چیل اور شیروں کی طرح نوچ نوچ کھا لیتے ہیں۔میکاولی کہتا ہے کہ ایک حکمران کو شیر کی طرح دلیر اور لومڑی کی طرح چالاک ہونا چاہئے اگر صرف شیر کی طرح دلیر ہوگا تو بے وقوف ہوگا۔آگے چل کر وہ مزید لکھتا ہے کہ اگر آپ کو یہ انتخاب کرنا ہو کہ آپ ایسے حکمران بنیں جس سے عوام محبت کرتے ہوں یا خوفزدہ ہوں تو آپ کو خوفزدہ کرنے والا حکمران بننا چاہئے۔میکاولی تو سولہویں عیسوی کا لکھاری تھا اگر میں ازمنہ قدیم کی بات کروں تو شداد،نمرود،فرعون،کمپوچیہ سے لے کر اسکندر اور چندر گپت موریہ تک سب ایسے حکمران رہے جنہوں نے اپنی طاقت اور چالاکیوں کی بنا پر عوام پر حکومت کی، تاریخ کے اوراق میں ڈر کا عالم تو یہ رہا کہ ہلاکو خان جب کسی علاقہ کو فتح کرتا تو سب سے پہلے ان کی فصلوں کو آگ لگا کر عوام کے دلوں پر خوف کی فضا پیدا کر دیتا۔
اندازِ حکمرانی اب بھی نہیں بدلا بس طریقہ واردات تبدیل ہو گیا ہے۔نظام نہیں چہرے تبدیل ہوئے ہیں اور ایسے ہی ہوتے رہیں گے کیونکہ ہمارے معاشرہ کا المیہ ہی یہ رہا کہ بادشاہ اور بادشاہت میں اتنی فرعونیت نہیں ہوتی جتنا کہ حواری فرعون کی اولاد ہونے کا کردار ادا کرتے ہیں۔حکمران طبقہ کو اپنی عنانیت،رعب و دبدبہ عوام پر برقرار رکھنے کے لئے ایسی لومڑیوں اور گدھوں کو پالنا پڑتا ہے جو بوقت ضرورت ان کے کام آسکے۔یہ لومڑیوں جیسے شاطر اور گدھوں جیسے عوام کو بے وقوف بنانے والے کسی کردار مین بھی آپ کے سامنے جلوہ افروز ہو سکتے ہیں،کوئی وزیر،کوئی مشیر،کہیں سیکرٹری تو کسی جگہ چمچے بنے ہوئے ورکرز کی صورت میں۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکمرانوں پہ تھوڑی سے مشکل پڑنے پر شور مچاتے پھرتے ہیں کہ
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
یہ وہ کردار ہیں جو عوام میں آتے ہیں تو شیر بن کر انہیں اپنے آقاٗوں کے گیت گانے پر مجبور کرتے ہیں اور جب فرعون کے دربار میں ہوتے ہیں تو گدھے بن کراپنی فرعونیت کی ہزار داستانیں سنا کر اپنے اپنے آقاؤں کو خوش کرتے ہیں۔اختتام یہیں نہیں ہوتا بلکہ ہر شیر کسی نہ کسی نظام میں گدھا ضرور ہے۔یعنی ہر شیر کے اوپر ایک شیر حکمراں بن کر اپنے اپنے گدھوں کو حکم صادر کرتا ہے اور وہ حکم بجا لانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں کہ کہیں میری جگہ کسی اور کو تعینات نا کردیا جائے۔اس سارے عمل میں اگر کسی کا نقصان ہوتا ہے تو وہ ہے غریب عوام،دورِ حکومت کوئی بھی ہوفرعونیت کا شکار ہم عوام ہی ہوتے ہیں اور تب تک ہوتے رہیں گے تاوقتیکہ شعور کی بیداری نہ ہو جائے اگر ایسا ہو گیا تو یہی گدھے ایک دن شیر بن جائیں گے۔
Leave a Reply