rki.news
(تحریر: ثمینہ علی)
گرینڈ ٹرنک روڈ، جسے عام طور پر جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے، صرف ایک شاہراہ نہیں بلکہ ایک زندہ تاریخ ہے جو صدیوں، تہذیبوں اور سلطنتوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ یہ سڑک تقریباً 2,500 کلومیٹر (1,600 میل) طویل ہے اور افغانستان کے شہر کابل سے لے کر بنگلہ دیش کے چٹاگانگ تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں پشاور، راولپنڈی، لاہور، امرتسر، دہلی اور کلکتہ جیسے اہم شہر شامل ہیں۔ یہ ایشیا کی قدیم ترین اور طویل ترین سڑکوں میں سے ایک ہے جو دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے تجارت، فوجی نقل و حرکت اور ثقافتی تبادلوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
اس شاہراہ کی ابتدا موریہ سلطنت کے دور میں، تیسری صدی قبل مسیح میں ہوئی۔ اسے سب سے پہلے چندر گپت موریہ نے تعمیر کیا اور بعد میں شہنشاہ اشوک نے اسے مزید ترقی دی۔ اُس وقت اسے “اتر پاتھ” کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کا مطلب ہے “شمالی راستہ”۔ یہ مشرقی اور مغربی علاقوں کو آپس میں ملانے کا بنیادی ذریعہ تھا۔
سولہویں صدی میں شیر شاہ سوری نے اس سڑک کو ایک مکمل اور مربوط شاہراہ میں تبدیل کیا۔ انہوں نے اسے سونارگاؤں (موجودہ بنگلہ دیش) سے پشاور تک پھیلایا۔ شیر شاہ سوری نے ہر کوس پر مینار (کوس مینار) بنوائے، مسافروں کے لیے سرائے تعمیر کیں، اور دونوں جانب سایہ دار درخت لگوائے تاکہ مسافروں کو آرام میسر ہو اور حفاظت کا احساس بھی رہے۔
مغل دور میں بھی یہ سڑک نہایت اہم رہی۔ مغل بادشاہوں نے اسے انتظامی اور فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اکبر اعظم اور اس کے جانشینوں نے اس سڑک کو مزید وسعت دی اور اس پر سیکیورٹی فراہم کی تاکہ وہ اپنی سلطنت کے مختلف حصوں کو آسانی سے کنٹرول کر سکیں۔ دہلی، لاہور اور آگرہ جیسے شہروں کو آپس میں جوڑنے میں اس شاہراہ نے اہم کردار ادا کیا۔
برطانوی دور میں اس سڑک کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ یہ انگریزوں کے لیے فوجی نقل و حمل اور انتظامی سرگرمیوں کا بنیادی ذریعہ بن گئی۔ انہوں نے اس پر پل بنوائے، پکی سڑکیں تعمیر کیں اور اسے اپنی نوآبادیاتی حکمرانی کا ایک مظہر بنا دیا۔
قیام پاکستان کے بعد، گرینڈ ٹرنک روڈ مختلف ممالک میں تقسیم ہو گئی — پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان۔ اس تقسیم کے باوجود، یہ شاہراہ آج بھی جنوبی ایشیا میں نقل و حمل اور تجارت کا اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان میں جی ٹی روڈ پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد، گوجرانوالہ اور لاہور جیسے بڑے شہروں کو آپس میں جوڑتی ہے اور قومی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اگرچہ موٹرویز اور ایکسپریس ویز نے کچھ حد تک اس کی اہمیت کم کی ہے، لیکن آج بھی یہ سڑک اپنے اطراف میں موجود چھوٹے شہروں، بازاروں، تاریخی مقامات اور روزگار کے مواقع کی وجہ سے ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ جی ٹی روڈ نہ صرف ایک زمینی راستہ ہے، بلکہ ایک تہذیبی داستان بھی ہے۔ یہ شاہراہ ہزاروں سالوں سے مختلف مذاہب، زبانوں، ثقافتوں اور لوگوں کے میل جول کی علامت بنی ہوئی ہے۔
ثقافتی لحاظ سے بھی یہ سڑک بے حد اہم ہے۔ یہاں ہر قدم پر تاریخ چھپی ہوئی ہے — لاہور کے فصیل دار شہر سے لے کر دہلی کے مغلیہ آثار تک، اور امرتسر کے گوردواروں سے لے کر کلکتہ کی پرانی عمارتوں تک، ہر مقام پر ماضی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
معاشی لحاظ سے، جی ٹی روڈ اب بھی ایک مضبوط تجارتی راستہ ہے۔ پاکستان میں مال بردار گاڑیاں، بسیں اور ٹرک روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اس سڑک پر سفر کرتے ہیں۔ یہ سڑک صنعتوں، زراعتی علاقوں اور شہروں کو بندرگاہوں جیسے کراچی اور گوادر سے جوڑتی ہے۔ دفاعی اعتبار سے بھی یہ راستہ نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ سرحدی علاقوں جیسے تورخم اور واہگہ کے قریب واقع ہے، جو کہ سفارتی اور عسکری لحاظ سے اہم مقام رکھتے ہیں۔
تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ یہ سڑک مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں ٹریفک کا رش، ماحولیات کی خرابی، بے ہنگم آبادی، اور تاریخی مقامات کی تباہی شامل ہے۔ اس سڑک کے تحفظ اور بحالی کے لیے حکومت، ماہرینِ آثارِ قدیمہ، اور مقامی کمیونٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس کے تاریخی ورثے کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی جدید ترقی بھی ناگزیر ہے۔
گرینڈ ٹرنک روڈ صرف ایک شاہراہ نہیں بلکہ ایک زندہ تاریخ ہے — ایک ایسا راستہ جس پر بادشاہوں، صوفیوں، تاجروں، سپاہیوں اور عام لوگوں نے سفر کیا، خواب دیکھے، قربانیاں دیں اور تہذیبوں کو پروان چڑھایا۔ آج جب ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، تو ہمیں اس سڑک کو محض ایک سفری راستہ نہیں بلکہ ایک تاریخی ورثہ سمجھ کر اس کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس کے عظیم ماضی سے سیکھ سکیں اور اسے مستقبل کے لیے بھی کارآمد بنا سکیں۔
Leave a Reply