_اردو کی نگہداشت کے خالد ہیں ہم
تاریخ میں تہذیب کی واحد ہیں ہم
آؤ ہمیں دیکھو، نۓ اردو زادوں
اردو کے مبلغ ہیں، مجاہد ہیں ہم
گلزار دہلوی
_
کاش! آج کے اس آلودہ ماحول میں کوئی ایسا روشن و تاباں چہرہ پیدا ہو، جو صاف شفاف نگاہوں سے جگمگاتا ہو۔ صوفیانہ سفید اچکن میں ملبوس، جس کے بائیں جیب میں سرخ گلاب ہو اور ہاتھ میں ادب و تہذیب کا پرچم لئے ملک کو گلزار کرنے کے عزم کے ساتھ جامِ اردو پی رہا ہو۔ لیکن افسوس!
صد افسوس!
یہ خواب شاید اب کبھی پورا نہ ہو سکے۔
اردو ادب کی تاریخ ایسے عظیم سپوتوں سے خالی نہیں جنہیں ہم بجا طور پر مجاہدِ اردو، سراجِ اردو، پرستارِ اردو، گلزارِ خسرو، مبلغِ اردو، امامِ اردو، شاعرِ قوم، اور بلبلِ دہلی جیسے القابات سے نواز سکیں۔ ان سب خطابات کے مستحق ایک ہی شخصیت تھیں—پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی۔
یہ نام صرف ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و تمدن کی روشن مثال ہے۔ آپ اردو زبان و ادب کے نمائندہ شاعر، امامِ اردو اور ہندوستانی یکجہتی کی ایک زندہ علامت تھے۔
آپ کا مکمل نام “پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی” تھا، جو خود ایک تہذیبی میراث کی نمائندگی کرتا ہے۔ “پنڈت آنند موہن زتشی” اس لیے کہ آپ نسل سے کشمیری پنڈت تھے، “گلزار” آپ کا تخلص تھا، “دہلوی” اس لیے کہ آپ دہلی سے تھے، اور “نظامی” اس لیے کہ آپ کو حضرت نظام الدین اولیاء اور تصوف سے بے پناہ محبت تھی۔
آپ کو اردو زبان سے بے حد عشق تھا۔ بقول آپ کے، اردو سے شیریں زبان اور کوئی نہیں۔ آپ ہمیشہ کہتے کہ ہم تک فارسی، اردو اور انگریزی پہلے پہنچیں، سنسکرت اور ہندی بعد میں آئیں۔
آپ کی والدہ برج رانی زتشی، جو بیزار دہلوی تخلص کرتی تھیں، خود اردو ادب سے شغف رکھتی تھیں۔ آپ کے بڑے بھائی رتن سوہن ناتھ زتشی خار دہلوی بھی بہترین شاعر تھے۔ گویا آپ کے گھر کا ماحول ادب و سخن سے معطر تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت والدہ کی نگرانی میں ہوئی، جنہوں نے آپ کو گلستاں، بوستاں، انوارِ سہیلی، اور اخلاق محسنی جیسے ادب کے بنیادی ذخائر سے روشناس کروایا۔
آپ نے پنڈت امر ناتھ سے تصوف اور ویدانت کے فلسفے کی باریکیاں سیکھیں، بابائے اردو مولوی عبدالحق سے اردو کی مشترکہ تہذیب کا درس لیا، اور مختلف اساتذہ و شعرا سے _اکتسابِ ہنر کرکے اپنے فن کو نکھارا۔
درسِ اردو زبان دیتا ہوں
اہلِ ایماں پہ جان دیتا ہوں
میں عجب ہوں امام اردو کا
بت کدوں میں اذان دیتا ہوں
گلزار دہلوی_
گلزار دہلوی نے ہمیشہ قومی یکجہتی کی شاندار مثال پیش کی۔ رمضان میں روزہ افطار کے انتظامات ہوں یا عرس کے موقع پر حضرت نظام الدین اولیاء کے دربار میں والہانہ خدمات، آپ نے خود کو کبھی کسی مذہبی یا تہذیبی قید میں نہیں رکھا۔ آپ کے نزدیک اصل فخر اردو زبان کی خدمت تھا، اور آپ آخری دم تک تبلیغِ اردو کرتے رہے۔
1936ء میں انجمن ترقی اردو ہند کے تحت کل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی آپ کی شاعری کے قدردان تھے۔
*
گلزار دہلوی صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ سائنس کے میدان میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ ایک سائنسی رسالے کے مدیر رہے، اور “سائنس کی دنیا” کے نام سے رسالہ نکالا۔ جواہر لعل نہرو نے آپ کو “شاعرِ قوم” کے خطاب سے نوازا۔
مٹتی ہوئی دلّی کا نشاں ہیں ہم لوگ
ڈھونڈو گے کوئی دن میں کہاں ہیں ہم لوگ
جلتی ہوئی شمعوں کے سحر کے آنسو
بجھتی ہوئی لکڑی کا دھواں ہیں ہم* لوگ
گلزار دہلوی
یہ دلّی بارہا اجڑی اور بارہا بسی۔ اس کی گلیاں بادشاہوں کی حکمرانی کی گواہ ہیں، یہ محل و باغات حملہ آوروں کے تشدد کے شاہد ہیں، اور یہ کوچے اردو زبان کی تشکیل اور ترقی کی داستان سناتے ہیں۔
دلّی کی تاریخ کا اہم حصہ اس کی “ٹکسالی زبان” ہے، جو شائستگی، محبت، اور تہذیب کا عکاس تھی۔ یہ وہی دلّی ہے جہاں 7 جولائی 1926ء کو پرانی دلّی کی کشمیری گلی میں ایک برہمن پنڈت کے گھر پیدا ہونے والے گلزار دہلوی نے اپنی بیشتر زندگی گزاری۔ یہ شہر ان کی شاعری اور شخصیت میں یوں رچ بس گیا تھا جیسے دلّی کے بغیر ان کی شناخت ادھوری ہو۔
آپ نے اس شہر کے زوال اور عروج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جامع مسجد کے قریب موجود اردو بازار، جہاں کبھی کتابیں علم کی روشنی بکھیرتی تھیں، اب اس بازار کی جگہ بدل گئی ہے۔ کتابوں کا شوق کم اور ان کی جگہ دیگر سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ یہی تبدیلی گلزار دہلوی کے دل میں درد پیدا کرتی رہی، اور وہ ہر محفل میں اردو کو زندہ رکھنے کی التجا کرتے رہے۔
_
**پوچھے کوئی یہ روحِ ظفر سے جو ذوق ہو
مومن کہاں ہے، میر کہاں، برہمن کہاں؟
گلزار آبروۓ زباں اب ہمیں سے ہے
دلّی میں اپنے بعد یہ لطفِ سخن کہاں؟
گلزار دہلوی_
آپ کی دلّی صرف ایک شہر نہیں بلکہ ایک تہذیب تھی۔ آپ نے دلّی کے ماضی، حال، اور مستقبل کو اپنے اشعار میں سمو دیا، اور اپنی آخری سانس تک اردو زبان اور دلّی کی تہذیب کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔
آپ نے اردو کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ جامع مسجد دہلی کے اردگرد اردو بازاروں کے زوال پر آپ بے حد افسردہ تھے اور ہر محفل میں اردو کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اردو کے بغیر ہماری تہذیب ادھوری ہے۔
زباں ہماری حریفوں سے رد نہیں ہوگی
جو خود زبان بھولے، وہ حد نہیں ہوگی
ہر ایک لفظ کو، لہجے کو غور سے سن لو
ہمارے بعد زباں کی سند نہیں ہوگی
گلزار دہلوی
12 جون 2020 کو “سراجِ اردو “اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن آپ کا کام اردو ادب اور قومی یکجہتی کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
گزشتہ سوموار، 9 دسمبر 2024 کو گلزار دہلوی کی مونوگراف کی رسم رونمائی عالمی اردو ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوانِ غالب میں منعقد ہوئی۔ فاروق ارگلی صاحب کی تحریر کردہ اس مونوگراف کو دہلی اردو اکاڈمی نے شائع کیا۔ اس مونوگراف میں فاروق صاحب نے گلزار دہلوی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔
تشکر،
از ✒ قلم
پروین شغف دہلی
Leave a Reply