گل کو گلاب اور چندا کو ماہتاب کہتے ہیں
گل کو گلاب اور چندا کو ماہتاب کہتے ہیں
اپنے لفظوں کے جہاں کو کتاب کہتے ہیں
ہم سجا رکھتے ہیں الفت کا اک جہاں پونم
ہم اپنی آنکھوں میں کچھ ایسے خواب رکھتے ہیں.
خوشبویں، رنگ،چہار سو پھیلے ہوے آنچل، سناٹے، مدھر ہوایں، اڑتے گاتے رب کی ثنای میں نغمہ خواں پرندے، آتے جاتے موسم ہمیشہ سے ہی میری کمزوری رہے ہیں میں لوگوں کو ہنستے گاتے، کھیلتے کھودتے، انجواے کرتت دیکھ کے خوشی سے جھوم اٹھتی ہوں،
مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری روح میں صبر اور شکر کا مادہ عام لوگوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے میں فوڈ سٹریٹس میں لوگوں کے جم غفیر کو طرح طرح کے خوشبو دار اور ذایقہ دار کھانوں سے انصاف کر کے ان کو ملنے والی انجان خوشی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کءی کءی گھنٹے فوڈ سٹریٹس میں گزار دینے والی ہستی ہوں. ہنستے کھیلتے بازاروں میں صبح سے شام کر کے اپنی اپنی من پسند چیزیں گھروں کو لے جانے والے خریداروں کی طرح میں دو وقت کی روکھی سوکھی کھاکر بھی ایسا ہی سمجھتی ہوں گویا من سلویٰ کی دعوت سے میں نے ہی جی بھر کے فیض اٹھا یا ہو، لوگوں کو سکھ، امن اور سکون میں دیکھ کر مجھے ایک عجب طرح کا سکون ملتا ہے روح کی ساری شر یانوں میں امن و شانتی کے نغمے مجھے رات کی پرسکون نیند مہیا کرتے ہیں. مجھے لگتا ہے کہ رب نے انسان کو صرف پیار، محبت اور امن کا داعی بنا کر اس دنیا میں بھیجا اور اللہ والے اسی پیغام کا الاپ کرتے کرتے دنیا سے پردہ فرماگیے.
مندر ڈھا دے، مسجد ڈھا دے ڈھا دے جو کج ڈھیندا ای
اک بندے دا دل نہ ڈھا یں رب دلاں وچ رہیند؛ا.
روز آفرینش سے سے آج تک ہونے والے اس جنگ و جدل میں سواے انسانیت کےجنا زے کے نکلنے اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آ سکا. خیر میں بتا رہی تھی کہ میری ساسو ماں نے مجھ سے روایتی ساس والا سلوک بڑے دھڑلے سے روا رکھا کوی اور بہو ہوتی تو شاید برداشت نہ کر پاتی لیکن شکر اس مالک کا اس نے صبر اور شکر کے جواہر پارے مجھے کثرت سے عطا فرمائے جو سچ میں میرے بہت کام آے. میرے میاں شادی سے پہلے ہی ابو ظہببی ایک اچھی فرم میں ملازم تھے ایک معقول رقم وہ میرے ساس. سسر کو بھیجتے تھے جس سے ہمارا گزارہ بڑے اچھے طریقے سے ہو جاتا تھا میرا ایک ہی بیٹا جو لایق فایق اور بلا کا محنتی تھی اسے کی انجیرینگ کے مکمل ہوتے ہی میں اس کی لاڈلی کو بڑے ٹھاٹ سے بیاہ کے گھر لے آی تھی جی ہاں میرے اکلوتے بیٹے نے پسند کی شادی کی تھی اور مجھے طوطا مینا کا یہ ملاپ بہت پسندتھا میں اٹھتے بیٹھتے ان کی صحت یابی، خوشحال اور درازی عمر کی دعائیں مانگتی تھی اور انہیں ایک دوسرے کے لاڈ اٹھاتے دیکھ جر کبھی کبھی تو میری آنکھیں بھی بھر آتی تھیں. اللہ کا شکر یے کہ میں اس جلن اور حسد سے کوسوں دور تھی جس کا شکار ہو کے خواتین خواہ مخواہ ہی اپنے گھروندے تباہ و بربادکر لیتی ہیں مجھے اپنی کزن یاد آگئی جو اپنے پینتس سالہ اکلوتے ڈاکٹر بیٹے کے لیے خوبصورت،کمسن،لیڈی ڈاکٹر
کا رشتہ دھونڈ رہی ہے جسے زمانے کی ہوا بالکل نہ لگی ہو
اور جو جھاڑو ہاتھ میں پکڑ
کر ساسو جی کے اشاروں پہ اس طرح ناچے کہ دنیا اوردنیا کے ضابطے انگشت بدنداں رہ جایں. اور چراغ لے کے ڈھونڈنے سے بھی ایسی دولہن ابھی تک مل نہی پای اور دولہا صاحب ابھی تک کنوارے ہیں.
سر میں چاندی آ گءء
پر نہ ٹوٹتے خواہش کے
خیر میں بتا رہی تھی کہ اللہ کااحسان ہے کہ میری بہع اود بیٹَا انتہائی ں صورت زندگی گزار رہے ہیں میرے اور میری بہو کے درمیان عزت کا ایک مضبوط ہالہ ہے جسے ہم دونوں نے مضبوطی اور بہادری سے تھام رکھا ہے کیونکہ ہمیں اچھی طرح سھے احساس ہے کہ شیشے پہ پڑی ہوی ایک دڑاڑ ہی شیشے کے حسن کو داغدار کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے
دراڑ
شیشے میں دراڑیں اچھی ہیں
شیشے کی کرچن وارے ہے
رشتوں میں دراڑیں الجھن ہیں
اک روگ نرا
اک خوف نرا
اک سوگ نرا
تو میں اور میری بہو نے اپنے اس نازک رشتے کو احترام کے سفید مرمریں چولے میں احترام سے لپیٹ رکھا ہے میں نے ایک باشعور عورت کی طرح اپنے بیٹے کو اپنی بہو کو سونپ دیا ہے نا کہ عام عورتوں کی طرح کاکی چوکی بنتے ہوے ہر وقت اپنے بیٹے کی پٹی سے لگے رہ کر رنگ میں بھنگ ڈالنے جیسے گناہ عظیم سے اپنے آپ کو بڑی سہولت سے نکال لیا ہے.
اور میری باقی کی ساری ساسوں سے بھی ہاتھ جوڑ کر یہی درخواست ہے کہ آپ اپنے حصے کی خوشیاں اور غم جھیل چکی ہیں آپ اپنی زندگی جی چکی ہیں اب دوسروں کی نازو پلی، لاڈلی بیٹیوں کا جینا حرام مت کیجیے.
اور پھر مجھے زارا نامی وہ بدنصیب،. اور بد بخت بیٹی یاد آگیی جسے اس جرم کی پافاش میں بے رحمی سے خالہ ساس نے بے رحمی سے قتل کر دیا کہ اس کا شوہر اس کے حسن کا اس شدت سے اسیر تھا کہ جلن اور حسد کی ماری خالہ ساس اور نندوں نے ایک معصوم زارا کے قتل سے اپ ے ہاتھ رنگ لیےارے یہ لوگوں کی نازو ں پلی بیٹیاں جو وہ شادی کے نام پہ آپ کے حوالے کر دیتے ہیں تو ان کابے حد اور بے حساب خیال رکھا کریں نہ کہ انھیں بے رحمی سے ختم کیا کریں.
انھیں گل کہیں یا گلاب
انھیں چاند یا ماہتاب
انھیں رکھیے سنبھا ل کر ایسے
جیسے چند پھول ہوں اور ہوں بھی خو؛ ب
تو خدارا روایتی ساس بہو کے رشتے کی نزاکت کو سمجھتے ہوے اس میں محبت کی چاشنی کے لڈووں سےسجاوٹ کیجیے اور یہ اصول بنا لیجیےکہ آنے والی بہووں سے محبت کا سکوک رروَ رکھنا ہے تاکہ مزید زارایںاس دقیانوسی حسد اور جلن کی آنچ سے محفوظ رہ سکیں
ڈاکٹر پونم گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com
Leave a Reply