rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
میرے منہ سے بے ساختہ ہی اسے دیکھتے ہی نکلا، بے چارہ
اب آپ پوچھیں گے کہ بیچارہ کیوں؟ تو لامحالہ، شکل صورت، عزت شہرت، زندگی موت بھلے اللہ کی عطا ہے مگر اپنی شخصیت کو بنا سنوار کے رکھنا کسی نہ کسی حد تک ہمارے ہاتھ میں بھی ہوتا ہے، کچھ لوگ، معمولی شکل و صورت کے ساتھ اس دنیا میں بھیجے جاتے ہیں مگر ان کی صفائی ستھرائی، سجنے سنورنے کی َادایں اتنی والہانہ ہوتی ہیں کہ ان کی معمولی شکل بھی ماہتابی ہو جاتی ہےاور کچھ ایسے ایسے شاہکار بھی دیکھے جنہیں اللہ پاک نے اچھی خاصی شکل و صورت دے رکھی ہوتی ہے مگر وہ اتنے کاہل، اتنے نکمے، اتنے بھنگی پوستی ہوتے ہیں کہ اپنی اچھی بھلی شکل کو بھی نشانہ عبرت بنا کر خواہ مخواہ ہی اپنا مذاق بنواتے ہیں، تو جن حضرت کا ذکر خیر میں کرنے جا رہی ہوں وہ بیچارے بھی اسی قبیلے کے فرد تھے جو دکھنے میں تو یتیم ہی دکھتے تھے مگر ان کے لچھن اور طور طریقے بھی انتہائی چھچھورے اور نا قابل گرفت تھے، قد بمشکل پانچ فٹ، رنگ گہرا سانولا، گنجا سر، منہ میں صرف دو تین دانت، چال میں لنگراہٹ اور گفتگو میں گھسیاہٹ، کباڑیے کی دوکان میں کام کرتے کرتے مارے بندھے رو رو کے میٹرک کیا اور ردی ردی کھیلتے کھیلتے تھوڑا بہت چھاپا کھانے کا کام بھی سیکھ لیا، کہتے ہیں بھوکا پیٹ اور غربت نامی عفریت اس دنیا کے مانے ہوے استاد ہیں لیکن ازلی بھوک کبھی بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی، ہم جتنا مرضی اس ازلی اور پیدایشی بھوک سے پیچھا چھڑانا چاہیں یہ ہماری ہستی میں کسی خطرناک موروثی بیماری کی طرح دل و دماغ پہ پوری طرح سے ہاوی ہوتے ہیں، تو بیچارے چھاپا خانے کے مالک کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی، رازق چونکہ اللہ کی ذات ہے، اور وہ ہر کس و ناکس کا پالن ہار ہے تو ان حضرت صاحب کا کاروبار بھی بھلے لولا لنگڑا ہی سہی، کھینچ تان کے کسی نہ کسی حد تک چل ہی رہا تھا، سات بچے اور بیمار بیوی کا ساتھ تھا اوپر سے حضرت خود بھی سستی مارے تھا، دو دن میں مکمل ہونے والے پروجیکٹ پہ مہینوں ضائع کرنا ان کا من پسند مشغلہ تھا، جو لوگ ان سے اپنی کتابوں کو چھپوانے کا کام کروانے کی غلطی کر لیتے ان کی زندگی کی یہ پہلی اور آخری غلطی ہی ہوتی، کبھی کبھی بیچارے ادیب انتظار کی اذیت سہہ جاتے اور لمبے انتظار اور بے تحاشا کھپ کھپای کے بعد جب کتاب ان تک پہنچتی بھی تو ان کا سارا جوش و خروش اور ولولہ تقریباً اپنی موت آپ ہی مر چکا ہوتا، ایسے موقعوں کے لیے ہی یہ ضرب المثل کہی سنی جاتی ہے، ویلے کی نماز اور کویلے کی ٹکریں، بڑبولا پن اور کہانی نویسی اس پبلشر پہ ختم تھی، لیکن کبھی بھی منزل تک رسائی صرف باتوں سے طے نہیں ہوتی، یہ گمنام شہر کے بے نام پبلشر نے بھی آج کل کے ماڈرن، ترقی یافتہ دور کی طرح فیس بک، انسٹا گرام پہ پیج بنا رکھا تھا، زیادہ تر نیے لکھنے والے اس فراڈییے کے ہتھے چڑھ جاتے، کمپوزنگ شدہ لٹریچر کو چھپوانا کونسا مشکل کام ہوتا ہے مگر یہ آنجناب اس معمولی کام کے کروانے کے لیے ایک تو اچھے خاصے پیسے بٹورتے دوسرے کتاب چھپوانے والے کو صحیح معنوں میں خون کے آنسو بھی رلاتے، پبلشر حضرات کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، کتاب کی کمپوزنگ، سرورق، اگر کسی اور زبان میں ترجمہ کروانا ہے تو اس سلسلے میں ادیب کی مدد کرنا، کتاب کے جملہ حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوی کرنا بھی اصل میں پبلشر کا ہی کام ہوتا ہے، کتاب کے شایع ہونے کے بعد کتاب کی فروخت بھی پبلشر ہی کا کام ہے مگر آج کل تو چونکہ زمانے کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے لہذا پبلشر اب تقریباً نام ہی کے پبلشر ہیں، ان کا کام صرف اور صرف کتاب کی چھپوای کے نام پہ بیچارے موجودہ دور کے ادیبوں اور شاعروں سے پیسے بٹورنا ہی ان پبلشرز کا کام ہے، ہاں چونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہ ہیں تو ان بے تحاشا کالی بھیڑوں کے بیچ میں اچھے، ایماندار اور محنتی پبلشرز اور اشاعتی ادارے موجود ہیں جو جی جان لگا کر پبلشنگ کی تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتے ہیں. لیکن انت الحیات نے جب اپنی شاعری کی پہلی ہی کتاب چھپوانے کے چاروں اور نگاہ دوڑای تو انت الحیات کی بدنصیبی کہ اتنی زیادہ چھان پھٹک کے بعد بھی اس کی کتاب کی چھپوای کا قرعہ فال اسی کارٹون نما پبلشر کے نام نکلا، کءی دہائیوں کی محنت، اپنا مسودہ اور لاکھوں روپے پبلشر کی خدمت میں پیش کر کے معاہدہ نامہ دستخط کر کے انت الحیات بے فکر ہو گءی،ہاں جب تین ماہ مکمل ہوے اور انت الحیات نے پبلشر کو فون کرنے شروع کیے تو ناہجاز پبلشر نے اپنی بیماری کا وہ لمبا قصہ سنا یا جسے سن کے بیچاری امت الحیات جیسی نرم دل خاتون اتنی دہل گءی کہ اگلے دو ماہ تک بالکل خاموش ہو گءی، اور جب دو ماہ بعد دوبارہ انت الحیات نے فون کیا تو اگلے دو ماہ تک ان کا فون ہی نہ سنا گیا اور اب کءی سال گزر چکے ہیں، انت الحیات کا مسودہ، پبلشر صاحب کے پاس ہے، انت الحیات کے پیسے وہ کھا چکے ہیں اور کتاب بلکہ انت الحیات کے خواب کی تکمیل ابھی تک کہیں دور دور تک ہوتی دکھائی نہیں دیتی. ایسے پبلشرز جن کی نہ کوئی زبان ہے اور قول و فعل میں جی بھر کے تضاد ہے، وہ بدبختی کی انتہا وں پہ ہے، اللہ پاک ایسے بد بختوں سے ہمیں اور آپ سب کو بچا کے رکھے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. Naureen 1@cloud.com
Leave a Reply