rki.news
تحریر: احسن انصاری
مدینہ ایسا شہر ہے جسے زائر دیکھتا نہیں، بلکہ زائر خود کو دیکھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس مقدس سرزمین کی طرف سفر دراصل قدموں کا سفر نہیں ہوتا، یہ دل کا سفر ہوتا ہے۔ یہاں پہنچنے سے پہلے انسان اپنی الجھنوں، اپنی تھکن، اپنی خواہشوں اور اپنے دل بھر بوجھ کو ساتھ لے کر آتا ہے، مگر شہر کی حد میں داخل ہوتے ہی جیسے کوئی غیبی ہاتھ اس بوجھ کو آہستہ آہستہ اتارنے لگتا ہے۔ مدینہ کی فضاؤں میں ایک ایسی خاموشی ہے جو شور کو ختم نہیں کرتی، بلکہ اندر کے شور کو خاموش کر دیتی ہے۔
یہاں قدم رکھتے ہی عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ انسان خود کو مسافر نہیں محسوس کرتا، بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے کہیں دور چھوڑا ہوا اپنا حصہ دوبارہ مل گیا ہو۔ زمین نرم محسوس ہوتی ہے، ہوائیں ٹھنڈی اور مہربان، اور آسمان دل کی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ۔ وہی عام سا راستہ اچانک ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے صدیوں کی دعاؤں نے اسے روشن کر رکھا ہو۔ اور شاید یہی مدینہ کی اصل پہچان ہے۔ سکون جو نظر سے نہیں، احساس سے اترتا ہے۔
مسجدِ نبوی کی سمت بڑھتے ہوئے قدم خود بخود آہستہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے شہر کہہ رہا ہو:
“پہلے دل کو تیار کرو… پھر قدم آگے بڑھانا۔”
ٹھنڈی ہوا رخساروں کو چھوتی ہے تو اس کا لمس عام ہوا کا لمس نہیں ہوتا۔ یہ وہ ہوا ہوتی ہے جو بخشش کی بشارت لاتی ہے، تقدیر کی مہربانی بن کر چلتی ہے، اور دل پر ایک عجیب سا سبز رنگ چھا دیتی ہے۔ مسجد کے سفید گنبد جب سامنے آتے ہیں تو دل میں ایک نرمی اترتی ہے، اور جب گنبدِ خضراء نظر آتا ہے تو وہ نرمی محبت میں بدل جاتی ہے۔
گنبدِ خضراء کے سامنے پہنچ کر انسان کی کیفیت لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔ آنکھیں کسی اجازت کے بغیر بھر آتی ہیں، زبان خود بخود درود پڑھتی ہے، اور دل اتنا نرم ہو جاتا ہے کہ جیسے برسوں کے فاصلے ختم ہو گئے ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دل کہتا ہے:
“السلام علیک یا رسول اللہ… میں آ گیا ہوں۔”
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جسے ہر زائر اپنی زندگی میں ایک نئے جنم کی طرح یاد رکھتا ہے۔
یہاں کھڑے ہو کر انسان سمجھتا ہے کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ وہ محبت جو زمانے کے میلوں، صدیوں کے فاصلوں، نسلوں کی تبدیلیوں اور زبانوں کی رکاوٹوں سے بالاتر ہو۔ مدینہ اسی محبت کا شہر ہے، جہاں رسولِ کریم ﷺ آرام فرما ہیں، جہاں ان کے قدموں کی مٹی نے ہزاروں نسلوں کے دلوں کو روشن کیا، جہاں دعائیں برکت بن کر برسیں، جہاں دروازے کھلے اور دل آباد ہوئے۔
مدینہ کی گلیوں کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ان میں کوئی شاہانہ عظمت نہیں، مگر ان کی خاک میں صدیوں کی رحمت ہے۔ عام سی گلیاں ہیں مگر دل پر نقش ہو جاتی ہیں۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے بازار، اور دکانیں، ہلکی روشنی والے راستے سب زائر کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں وقت رکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مدینہ کی گلیوں کا حسن ان کی خاموشی میں ہے۔ زائر یہاں چلتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس کے قدموں کے نیچے مٹی نہیں، برکت بچھی ہے۔
رؤضۂ رسول ﷺ کی طرف جاتے ہوئے دل پر جو کیفیت اترتی ہے، وہ زائر کی عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ دل کی سختیاں پگھلنے لگتی ہیں۔ رنجشیں اور نفرتیں ختم ہونے لگتی ہیں۔ مدینہ انسان کے اندر کی گرد صاف کرتا ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر انسان اپنے آپ سے کہتا ہے کہ شاید اسی شہر میں زندگی کا وہ گمشدہ سکون چھپا ہوا تھا جسے وہ برسوں سے ڈھونڈ رہا تھا۔
مدینہ کو صرف آنکھوں سے دیکھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ مدینہ دل سے دیکھا جاتا ہے، روح سے محسوس کیا جاتا ہے۔ یہاں کی خاموشی عبادت بن جاتی ہے، یہاں کی ہوا دعا بن جاتی ہے، یہاں کا منظر نور بن جاتا ہے۔ یہاں رہتے ہوئے انسان کو لگتا ہے کہ وہ اپنے رب کے بہت قریب آ گیا ہے، جیسے دل کے دروازے پر کوئی نرمی سے دستک دے رہا ہو۔
مدینہ کی ہر گھڑی قابلِ قدر ہے۔ ہر سانس قیمتی ہے۔ ہر لمحہ زندگی کو نئی معنویت دیتا ہے۔ یہاں کی راتیں سکون سے بھری ہوتی ہیں اور دن نور سے معمور۔ مدینہ کی صبحیں دل کو نرم کرتی ہیں، شامیں روح کو ہلکا کرتی ہیں، اور راتوں میں ایسا سکون ہوتا ہے جیسے آسمان خود روشنی بانٹ رہا ہو۔
مدینہ وہ شہر ہے جہاں دعا رد نہیں ہوتی، جہاں دل خالی نہیں رہتا، جہاں امید کم نہیں ہوتی، جہاں زائر روح کے اندر نئے چراغ روشن کر کے لوٹتا ہے۔ مدینہ کی خوشبو صرف ہوا میں نہیں ہوتی۔ یہ اندر اترتی ہے، مزاج کا حصہ بن جاتی ہے، اور انسان کی پوری زندگی بدل دیتی ہے۔ مدینہ وہ جگہ نہیں جہاں انسان صرف جاتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں انسان اپنی اصل پہچان پا لیتا ہے۔
Leave a Reply