گدڑی کا لعل
ارشد ندیم کو خراج تحسین
ہارون رشید قریشی
ہمارے مرحوم والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ بٹوارے سے پہلے معاشرے میں ایک جیسے لوگ ہوا کرتے تھے۔ رہن سہن بھی ایک جیسا ہوتا تھا، تعلیم و تربیت بھی یکساں ہوتی تھی۔ پاکستان کے بننے کے بعد تقریباً ایسے ہی چل رہا تھا۔ زیادہ بچوں نے ٹاٹ سے اپنی تعلیم شروع کی محنت اور لگن کے ساتھ زیادہ بچوں نے وطن عزیز کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور کھیل کے میدان میں بہت سے نایاب ہیرے پیدا کئے۔ پھر وقت کا پہیہ ایسے گھوما کہ ٹاٹ کی جگہ کرسیوں نے لے لی اور ہر سکول کے باہر انگلش میڈیم کے بورڈ لگ گئے۔ یہی وہ تاریخی موڑ ہے جہاں سے معاشرے میں تفریق اور طبقاتی کشمکش شروع ہونے لگی۔ سوسائٹی کے چند کاروباری طبقوں نے اس قیمتی پڑھائی کو جو مدارس اور ٹاٹوں سے شروع ہوئی تھی اسے کاروبار کا درجہ دلوا دیا۔پھرمیڈیا کے ساتھ مل کر ایسا پروپیگنڈا کیا کہ اعلی تعلیم جس میں سائنس انجینئیرنگ اور سوشل سائنس ہو بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے علاوہ اگر آپ نے کھیل کے میدان میں بھی ترقی کرنی ہے تو آپ کے بچوں کو ایسی پرائیویٹ درسگاہوں میں بھیجنا لازمی ہو گیا تھا جن کے کام سے زیادہ نام بکتے تھے۔ اس سے بھی خطرناک وقت یہ آیا کہ آپ کی ڈگری کی اہمیت آپ کی قابلیت سے نہیں بلکہ اس کا موازنہ درسگاہ سے شروع ہو گیا۔ اور یہ فقرہ زبان زد عام ہو گیا کہ ڈگری سے زیادہ اس بات کودیکھا جائے کہ ڈگری کہاں سے حاصل کی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری قوم کئی سماجی طبقات میں بٹ گئی۔ اتنی ترقی کے باوجود ہم اب تک صرف ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت یعنی ڈاکٹر عبدالسلام پیدا کر سکے۔ یا پھر وطن عزیز کو ایٹمی طاقت بنانے والا دوسرا ڈاکٹر عبدالقدیر بھی پیدا نہ کر سکے. یہ بات بھلا کسے یاد ہو سکتی کہ اولمپکس میں انفرادی تغمے کس کس نے حاصل کئے تھے۔ سال 1960 میں پہلی مرتبہ پہلوانی کے مقابلوں میں 1960 روم اولمپکس میں محمد بشیر نے کانسی اور 1988 میں سیول اولمپکس میں باکسر شاہ حسین نے انفرادی کانسی کے تمغے لیے تھے۔ ان دونوں کا تعلق عام گھرانوں سے تھا، شاید اسی وجہ سے ان کا ذکر گوگل کے علاوہ کہیں اور نہیں ملے گا۔ لوگوں کو شاید شاہ حسین کا نام باکسنگ کی وجہ سے یاد ہو جو کراچی کی عام سی بستی لیاری کا باسی ہے۔ اگر آپ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو
اولمپکس کے مقابلے یونان کے شہر اولمپیا سے 776 قبل مسیح شروع ہوئے تھے۔ جدید اولمپکس 128 سال قبل 1896 میں دوبارہ شروع کئے گئے۔
پاکستان کے ارشد ندیم نےاپنے کریئر کی سب سے بڑی جبکہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔ارشد نے اس مقابلے میں اپنی آخری تھرو بھی 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی اور اولمپکس میں انفرادی گولڈ میڈل جیتنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ ارشد ندیم کی اس جیت نے انہیں راتوں رات پاکستان کا سپر اسٹار بنا دیا۔ ندیم صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ جو ایک مزدور کے بیٹے ہیں۔ دوسرے پاکستانی بچوں کی طرح ان کا پہلا شوق کرکٹ تھا مگر گھریلوں حالات اس قابل نہیں تھے کہ وہ کرکٹ کا بیٹ بھی خرید سکیں۔ مگر وہ مایوس نہیں ہوے اور ایتھلیٹکس میں آگئے اور جیولین پھینکنے کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ ارشد نے 2011 میں ایتھلیٹکس سے حصہ لیا شروع کیا اور سال 2015 میں قومی چیمپئن بنے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور محنت اور لگن کے ساتھ بغیر کسی مالی مدد کے جیولین تھرو کی تربیت میں لگے رہے۔ ارشد نے کامن ویلتھ گیمز 2022 میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اور 2016 میں ورلڈ ایتھلیٹکس نے انہیں اسکالرشپ دی جس وجہ سے ارشد کو ماریشس میں آئی اے اے ایف ہائی پرفارمنس ٹریننگ سینٹر میں تربیت حاصل کرنے کا موقع دیا گیا اور یوں ارشد کی پہچان دنیا میں ایتھلیٹ کی شکل میں ہونے لگی۔ 8 اگست 2024 تک اگر ارشد کے کیریئر
پر نظر دوڑائیں تو علم ہو گا کہ کسی ادارے نے ان پر نظر کرم نہیں کی اور نہ ہمارے میڈیا نے اسے وہ مقام دیا جس کا وہ اہل تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے نام کے ساتھ کسی بڑے باپ کا نام اور نہ کسی بڑے تعلیمی ادارے کا نام لگا ہوا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ ارشد ندیم، محمد بشیر اور شاہ حسین کا تعلق عام خاندانوں اور شاید عام درسگاہوں کے ساتھ ہی رہا جہاں سے وہ تعلیم حاصل کر سکے۔ مگر پہلے تین کھلاڑیوں اور ارشد میں فرق یہ ہے کہ میڈیا میں آنے کے بعد ان پر ہر طرف سے انعامات اور پیسوں کی بارش شروع ہو گی ہے۔ کاش ایسے نایاب ہیروز کی اُس وقت مدد کی جائے جب انہیں معاشی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم ایسے ہیروز کی مدد کرتے رہتے تو دنیا کے میڈیا کو یہ نہ کہنا پڑتا 77 سالوں میں
انفرادی گولڈ میڈل جیتنے والا پہلا ایتھلیٹ ارشد ندیم جس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ہمارا یہ ہیرو صحیح معنوں میں گدڑی کا لعل اور چھپا رستم ثابت ہوا ہے۔اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود بھی دنیا میں اپنا نام پیدا کیا جا سکتا ہے۔
10اگست 2024
Leave a Reply