Today ePaper
Rahbar e Kisan International

گھاٹے کے سوداگر — ایک سبق آموز سچائی

Articles , Snippets , / Monday, July 14th, 2025

rki.news

(منقول ثمینہ علی)

ہنری، امریکہ کے شہر سیاٹل سے تعلق رکھنے والا شخص، مائیکروسافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔ اس نے 1980ء میں کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اپنے کیریئر میں مسلسل ترقی کرتا گیا۔ ہنری روز 16 گھنٹے کام کرتا، یہاں تک کہ وہ کمپنی کے بڑے اور اہم لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ کہا جاتا تھا کہ جب تک ہنری کسی سافٹ ویئر پر مسکرا نہ دے، وہ مارکیٹ میں نہیں آتا تھا۔

ہنری کا ایک بیٹا تھا جسے وہ اپنے کام کی مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ دے پاتا۔ جب وہ صبح دفتر جاتا تو بیٹا سکول جا چکا ہوتا اور جب لوٹتا تو بیٹا سو رہا ہوتا۔ چھٹی کے دن بیٹا کھیلنے چلا جاتا جبکہ ہنری سارا دن نیند پوری کرتا۔

1998ء میں ایک ٹی وی چینل نے ہنری کا انٹرویو کیا۔ میزبان نے ہنری کو سیاٹل کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا فرد قرار دیا۔ ہنری نے انٹرویو میں بتایا کہ وہ مائیکروسافٹ سے 500 ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ لیتا ہے۔

یہ انٹرویو اس کی بیوی اور بیٹے نے بھی دیکھا۔ انٹرویو ختم ہوتے ہی ہنری کا بیٹا اٹھا، اپنا منی باکس کھولا، تمام سکے اور نوٹ جمع کیے اور گننے لگا۔ یہ ساڑھے چار سو ڈالر تھے۔ اس نے وہ رقم جیب میں رکھی اور رات کو جب ہنری گھر آیا تو بیٹا جاگ رہا تھا۔

بیٹے نے باپ سے پچاس ڈالر ادھار مانگے۔ ہنری نے مسکرا کر رقم دے دی۔ بیٹے نے جیب سے باقی رقم نکالی، وہ 450 ڈالر تھی، اور باپ کو ساری رقم دے کر کہا:
“یہ 500 ڈالر ہیں۔ میں آپ سے ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ بیٹھیں، ہنسیں، بات کریں، مجھے دیکھیں، مجھے چھوئیں۔ بس ایک گھنٹہ میرے بن جائیں۔”

ہنری یہ سن کر خاموش ہو گیا، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسی واقعے کے بعد ہنری نے 1999ء میں ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا: “فیملی لائف”۔ اس میں اس نے اعتراف کیا کہ دنیا میں سب سے قیمتی چیز ہمارا خاندان ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی توانائیاں نوکری اور پیشے پر لگا دیتے ہیں، جو ہماری غیر موجودگی میں لمحوں میں ہمیں فراموش کر دیتے ہیں۔

ہنری نے لکھا: “اگر میں آج مر جاؤں، تو میری کرسی کسی اور کو دے دی جائے گی۔ میرا دفتر شام سے پہلے میرا متبادل ڈھونڈ لے گا۔ لیکن میرے بیوی بچے، میرے جانے کا غم عمر بھر نہیں بھلا سکیں گے۔”

یہ کہانی ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم اکثر اپنی زندگی کا سب سے قیمتی وقت ان لوگوں پر صرف کرتے ہیں جنہیں ہماری موجودگی یا غیر موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنے اہلِ خانہ، بچوں اور شریکِ حیات کو وہ وقت نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔

اسی طرح کا ایک واقعہ ایک ریٹائرڈ امریکی افسر کا ہے جسے صدر سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس سے فون آیا۔ اس نے معذرت کی اور کہا کہ اس دن وہ اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہے۔ فون کرنے والے نے حیرت سے پوچھا: “آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں؟”
افسر نے جواب دیا:
“نہیں، میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں، کیونکہ جب میں وائٹ ہاؤس سے نکلوں گا، صدر میرا نام بھی بھول چکے ہوں گے، لیکن میری پوتی یہ دن ساری زندگی یاد رکھے گی۔”

یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی ان لوگوں پر قربان کر دیتے ہیں جو ہمیں اشیاء کی طرح استعمال کر کے بھول جاتے ہیں، جبکہ ہمارے اصل خیرخواہ، ہمارے خاندان، ہمیں عمر بھر یاد رکھتے ہیں۔

ہم ان سنگدل اداروں اور سرد کاروباری تعلقات کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں جو ہمیں صرف فائدے کے وقت یاد رکھتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کی مسکراہٹ، اپنی بیوی کی نیند، اپنے والدین کے انتظار کو پسِ پشت ڈال کر “کامیابی” کے پیچھے دوڑتے ہیں، اور جب رُکتے ہیں تو سب کچھ دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

ہم سب، درحقیقت، “گھاٹے کے سوداگر” ہیں — جو اپنی قیمتی زندگی کے لمحات ان لوگوں کو بیچ دیتے ہیں جن کے دل میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ (منقول)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International