rki.news
عامرمُعانؔ
پچھلے ہفتے دو خبروں کا بہت چرچا رہا ہے۔ جن میں سے ایک خبر تو اسلام آباد میں تیز رفتار گاڑی چلاتے ہوئے کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں اسکوٹی پر گھر جاتی دو لڑکیوں کی زندگیاں پل بھر میں موت کے منہ میں جانے کی خبر ہے ۔ یہ خبر کچھ دن خوب چرچا میں رہی۔ اسی شور شرابے کے دوران میں آئی اس خبر نے سب کو ششدر کر دیا کہ دونوں لڑکیوں کے اہل خانہ نے اللہ کی رضا کی خاطر طاقتور کم عمر ڈرائیور کو معاف کر دیا ہے، اور یوں کیس ہنسی خوشی ختم ہو گیا۔
دوسری انتہائی افسوسناک خبر یہ رہی کہ کراچی میں ایک 3 سالہ بچہ بنا ڈھکن کے کھلے مین ہول میں گر گیا۔ 16 گھنٹے تلاش جاری رہی، لیکن پورا نظام مل کر بھی بچے کو تلاش نہ کر سکا۔ آخر خوب تگ و دو کے دوران ایک کچرہ چننے والے بچے کو ڈیڑھ کلو میٹر دور اس بچے کی لاش ملی۔ لاش ملنے کے بعد سب لوگوں نے مل کر آہوں اور سسکیوں میں بچے کی تدفین کر دی۔ والدین نے بھی دل پر پتھر رکھ کر اللہ کی رضا کو قبول کرتے ہوئے تمام ذمہ داران کو معاف کر دیا۔ یوں نظام کی کوتاہی پر اللہ کی رضا کا پردہ ڈال کر یہی فرسودہ نظام جوں کا توں آئندہ بھی چلنے کو تیار ملے گا۔
یہ دو الگ الگ خبریں ضرور ہیں مگر دونوں کا نتیجہ ایک ہی رہا۔ قانون کی کمزوری یا طاقتوروں کا قانون۔ جی ہاں طاقتوروں کا قانون۔ ایک ایسا قانون جس کا سارا زور صرف کمزوروں پر چلتا ہے۔ جہاں غریبوں کے آپس میں سالہا سال کیس چلتے رہتے ہیں اور شنوائی نہیں ہوتی، لیکن اگر کیس امیر اور غریب کے درمیان ہو جائے تو چند دنوں میں امیر کے حق میں اسی قانون کو موم کی ناک کی طرح موڑ کر ایسے راستے بنا دیے جاتے ہیں کہ امیر غریب کی گردن یا جیب پر پاؤں رکھ کر مکھن سے بال کی طرح باہر آ جاتا ہے۔ کسی کو بھی ان خبروں کو پڑھ کر حیرت کا جھٹکا بالکل نہیں لگا، بلکہ الٹا سب کو یہی کہتے سنا گیا کہ یہ پاکستان ہے یہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہوتا ہے، مگر کیوں؟ ایک غریب کے امیر قاتل کو تو اللہ کی رضا کے لئے معاف کر دیا گیا ہے، لیکن کیا اگر یہی بات الٹی ہوتی تو امیر کا غریب قاتل اتنی آسانی سے اللہ کی رضا کے لئے معاف کر دیا جاتا؟ یا پھر بنا پیشیوں کے ہی کئی عرصہ جیل میں سڑتا رہتا۔
دوسری طرف پورے نظام کی نا اہلیت کی بھینٹ چڑھنے والے 3 سالہ بچے کے والدین بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس اللہ کی رضا میں راضی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ انصاف کی امید میں کیس کی پیشیاں بھگتے بھگتے ہر لمحہ مرنے سے زیادہ ان دونوں خاندانوں نے اللہ کی رضا پر صبر کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس صورتحال میں کیا پورے نظام کی نا اہلی کو درست کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیسے اتنی آسانی سے ایک جان چلی جاتی ہے۔ کچھ دن شور ضرور ہوتا ہے، لیکن چائے کی پیالی میں اٹھتا یہ طوفان یکدم جھاگ کی طرح بیٹھ بھی جاتا ہے۔ سب اس واقعہ کو بھول کر اپنی زندگی میں مست مگن بھی ہو جاتے ہیں۔ پھر کوئی دوسرا واقعہ چند دن کے لئے لوگوں کی بیداری کا سبب بنتا ہے، اور پھر وہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ ملک پاکستان میں عرصہ دراز سے یہی تماشہ چل رہا ہے۔ سو اب ان واقعات کی نا تو نظام پر عمل کرنے والے کچھ زیادہ پرواہ کرتے ہیں، اور نہ ہی نظام کا جبر سہنے والے اب کچھ زیادہ پرواہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اس سب میں ایک بات شاید ہم بھول رہے ہیں۔ اللہ کی رضا پر راضی ہونے والے دراصل اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زمینی عدالتوں میں ان طاقتور افراد کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ ان کے پاس طاقت ہے، نہ پیسہ ہے ، اور نہ ہی وقت ان کا مددگار ہے۔ سو وہ ڈائریکٹ اللہ کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا لیتے ہیں۔ اللہ کہ عدالت جہاں کا انصاف درست اور سخت ہے۔ جہاں نظام کی اس نا انصافی کی سزا اس ناانصافی پر خاموش پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ہم اس بات کا تو گلہ کرتے ہیں کہ معاشرے میں بگاڑ بڑھتا جا رہا ہے، نا انصافیاں ہو رہی ہیں، چوروں، ڈاکوؤں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جہاں نہ غریب محفوظ ہے اور نہ وہ امیر جو قانون پر دباؤ ڈال کر اس کو اپنے مطابق موڑ لیتا ہے۔ کیا معاشرے میں ہوتا یہ سب بگاڑ دیکھنے کے بعد بھی ان مظلوموں کی بدعاؤں پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے؟ کیا ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ اللہ کی عدالت سے ان مظلوموں کے کیسز پر فیصلے جاری ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ہوشیار ہو جائیے۔ قانون پر عملدرآمد ممکن بنائیے۔ زمینی عدالتوں کے کیسز کا منصفانہ فیصلہ زمین پر ہی جلد از جلد کر لیجئے، تاکہ سزاوار کو سزا مل سکے۔ وگرنہ دوسری صورت میں نا انصافی پر چپ پورے معاشرے کو سزا بھگتنی ہو گی۔ تب آپ کی مرضی نہیں چلے گی، پھر قانون پر عملدرآمد تو ہو کر رہے گا۔ تب گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسے گا جو آہستہ آہستہ پستا سب کو نظر آ رہا ہے۔
Leave a Reply