وہ مغربی تہذیب کا اندھا مقلد تھا- اس کے گھر کی تین نوجوان لڑکیاں دراصل تین پہاڑی ندیاں تھیں- شوخ، تیز و طراز اور پرلے درجے کی منہ پھٹ یہی سبب تھا کہ صبح سے رات گئے تک اس کی عمارت میں اپ ٹو ڈیٹ نوجوانوں کا تانتا بندھا رہتا- دوسروں کے دروازوں پر جھولتے ہوۓ دبیز پردوں کو دیکھ کر وہ ناک بھوں چڑھاتے ہوۓ بڑے ہی تلخ لہجے میں کہتا کہ یہ لوگ کتنے “Narrow minded” ہیں- انہیں کم ظرفوں کی وجہ سے آج مشرق اتنا “Back ward” ہے _
وقت کا پہیہ گھومتا رہا- ساتھ ہی ساتھ اس کے گھر کی لڑکیاں بھی بےحجابانہ محفل محفل گھومتی رہتیں _ بستی کے کسی شاعر کی ایک نظم چھپی جس کا عنوان “تتلی” تھا- قلم کا “روۓ سخن” انہیں لڑکیوں کی طرف تھا_ یعنی
تتلی ! تتلی !
کتنی شاخوں پر بیٹھے گی
کتنے پھولوں کو چومے گی
ہر شئے کی
ایک حد ہوتی ہے
تیری ہوس کی حد بھی
ہے تتلی!
شام کا سورج
ڈوب رہا ہے
اس منظر سے عبرت لے لے
شاعر کا پیغام یہی ہے!
لیکن وہ ہائی سوسائٹی والے “کچو کے پتے” ثابت ہوۓ_ ایک دن علی الصباح مجھے خبر ملی کہ تینوں پہاڑی ندیاں بن بیاہی مائیں بن چکی ہیں اور ان کے بچے اسقاط حمل کی نذر ہوچکے ہیں _ یہ سن کر مجھے مطلق حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے_ دیر یا سویر ایسا تو ہونا ہی تھا- ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد جب میں دفتر کے لئے باہر نکلا تو اس کے گھر کی جانب بے اختیار میری نگاہیں اٹھی تو اٹھی ہی رہ گئی کیونکہ آج اس کے گھر کے دروازے پر خلاف معمول ٹاٹ کا ایک دبیز پردہ لٹک رہا تھا اور ہائی سوسائٹی کا علمبردار کسی چوکس چوکیدار کی طرح گھر کی رکھوالی کر رہا تھا- شاید زلزلے کے تین تابڑ توڑ جھٹکے کھا کر اس کے سر سے مغربیت کا بھوت اتر چکا تھا ۔۔۔۔!
نور اقبال (جگتدل)
مغربی بنگال
موبائل نمبر: 9239768229
Leave a Reply