قلم بردار
ارشد فاروق ہاشمی
— پس منظر اور خیالی پیش منظر کے ساتھ —
احباب جانتے ہیں کہ یہ میرا جنم دن ہے، چھ دہائیاں اور کچھ برس اوپر کا واقع!
- آپ ہی مجھے بتائیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ اس عہد پیری میں جنم دن منانے کی اہمیت نہیں رہتی؟
- کیا یہ سچ ہے کہ اس عمر تک پہنچتے پہنچتے قریبی افراد بھی آپ کے جنم دن کو رسمی طور پر بھی منانے کو اہمیت نہیں دیتے؟
- یکسر بھول جاتے ہیں ؟
- کیا یہ خوشحالی ہوتی ہے جو اس طرح کی عیاشیوں کی متحمل ہوتی ہے یا پھر یہ وقتی کسمپرسی جو اس دن کے منانے کو عیاشی سمجھتی ہے؟
امسال یہ دن ایسے گذرا کہ اکلاپا تھا، خاموشی تھی، اندھیرا تھا، سردی تھی، موسم سرما کی دوسری تیسری برف باری تھی، اور یخ بستہ ہوائیں تھیں اور میں !
یہ جاڑہ تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ ہی یہ میرا کچھ برا کر سکتا ہے۔ میں نے اس کا توڑ تلاش کر لیا ہے۔ صاف پانی اور خشک میوے! میں اس موسم سرما کا پچھلی تین دہائیوں سے مکمل طور پر عادی ہو چکا ہوں لیکن اکیلا پن اور خاموشی ایسے چبھتی ہے جیسے پاؤں میں نئے جوتے کا نوکیلا تیکھا اور نیا نیا کیل! خود ہی پکائی روٹی او ر کیک سمجھ کر کھائی !
اس مرتبہ جنم دن کی رات ایک عجیب واقع ہوا، آگے جو لکھوں گا وہ سترہ نومبر کی رات کا خواب ہے، پچھلے پہر کی گہری نیند میں آنے والا خواب، جاگتی آنکھوں والی حسرت نہیں، مگر ایک حقیقی خواب!
شائد خوابوں میں ہم وہی دیکھتے ہیں جو اتھل پتھل اور اگاڑ پچھاڑ ذہن میں ہو رہی ہوتی ہے، یہ حسرتیں ہوتی ہیں، یہ خواہشیں ہوتی ہیں، وہ خوابوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ کوئی ماہر نفسیات یا مست فلسفی، کوئی صوفی ہی، مگر ان کی بابت کچھ یہ بتا سکتا ہے۔
حال مستی یونہی رہے آباد !
بر سبیل تذکرہ ، نیند بھی ایک نعمت ہے، درد بھی ایک نعمت ہے۔ نیند نہ آئے تو تم اگلے دن کے معمولات کے لئے ترو تازہ نہیں ہو سکتے۔ زندگی کو جاری نہیں رکھ سکتے، جمود اور موت کا شکار ہو جاؤ گے۔ درد نہ ہو تو بیماری ایک ناسور بن سکتی ہے ۔ درد تمہاری بیماری کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ تم بر وقت علاج کروا سکو، اس درد کا کسی بھی طرح سے مداوا کر سکو!
رات کے پچھلے پہر اٹھتا ہے
درد، تہجد گذار ہو جیسے
ایسا ہی ایک خواب میں 1996 میں دیکھ چکا ہوں جب میں یہاں فن لینڈ کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ ، یونیورسٹی آف ہیلسنکی میں طالبعلم تھا اور میرے ساتھ یونان کی کچھ طالبات بھی پڑھتی تھیں۔
ایک یونانی کلاس فیلو دوشیزہ طالبہ ماریہ کی والدہ اپنے آبائی شہر میں ، اپنے گھر میں، عزیز و اقارب کے جھرمٹ میں شدید بیمار تھی، ماریہ ہر وقت اپنی ماں کو یاد کر کے آنسو بہاتی رہتی تھی۔ ہم سب طالب علم اس کی دلجوئی کرتے ، اسے دلاسہ دیتے اور اس کے بارے میں سوچتے۔ وہ میرے لئے یونان سے پانچ لیٹر زینون کے تیل کا کنستر بھی لے کر آئی جو میں سال ہا سال استعمال کرتا رہا۔
جب میں نے اسے اپنا ان دنوں کا خواب سنایا تو وہ پہلے ہنسی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ ہنسی کی وجہ یہ تھی کہ اسے لگا کہ میں نے سب کچھ دیکھ لیا ، اور رو دینے کی وجہ بھی یہی تھی !
کچھ ہفتوں کے بعد ہم سب کو اس کی ماں کی تدفین کی رسومات میں شرکت کے لئے یونان جانا پڑا تھا! تب ماریہ نے ہم سب دوستوں کو باری باری بھینچ بھینچ کر گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ جیسے ہم سب گورے، کالے، گندمی اس کے قریبی عزیز ہوں۔ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور یہ رشتہ اپنا متبادل، یقیناَ، آج تک پیدا نہیں کر سکا۔!
میرے جنم دن کی رات کے خواب میں، گذشتہ برسوں، 2012، 2013، 2016، 2019 اور اس کے بعد کے حقیقی دوروں کی طرح ، میں ایک سرکاری طائفہ لے کر پرائیوٹ جیٹ میں مقامی، فنش اعلیٰ افسران اور حکومتی عہدیداروں کو لے کر پاکستان جا رہا ہوں۔ جونہی طیارہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے، میں نے خواب میں خود کو بے ہوش دیکھا۔ ہوش آنے پر دیکھتا ہوں کہ جہاز سر سبز کھیتوں پر صرف چند میٹر کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے، سوچتا ہوں کہ کیا طیارہ گرنے والا ہے؟ اس سوچ کے ساتھ ہی میں پھر سے بے ہوش ہو جاتا ہوں۔
اگلے منظر میں دیکھتا ہوں کہ طیارہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ان ہرے بھرے کھیتوں میں بکھرا پڑا ہے ، میرے طائفے کے ارکان لہو لہان ہیں۔ مقامی دیہاتی افراد ، مرد و زن ، اپنی اپنی استعداد کے مطابق ابتدائی طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔
ہر طرف اک کہرام کا عالم ہے۔ میرے طائفے میں شامل کچھ افراد محفوظ ہیں اور دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔ میں بھی زخمی ہوں لیکن ، حیرت ہے کہ مرشد کو ، کوئی گہری چوٹ نہیں آئی ہے۔
میں مقامی لوگوں کی مدد سے اپنے مہمان طائفے کی زیادہ سے زیادہ مدد کر رہا ہوں اور ایک پیشہ ور مترجم کی طرح ایک کہنہ مشق مترجم کے فرائض بھی انجام دے رہا ہوں۔ یاد رہے کہ یہ ایک گہرہ نیند کا خواب ہے!
اتنے میں انسانی جانوں کو بچانے والے اداروں کے افراد ، اخباری نمائیندے، ٹیلی ویژن کے رپورٹر ، انواع و اقسام کے جعلی اور اصلی، دیگر سرکاری، نیم سرکاری اور فوجی امدادی اداروں کے افراد، اور شوقیہ نیم خواندہ رپورٹر وغیرہ بھی کیمرے اور ما ئیکرو فون لے کر پہنچ جاتے ہیں اور برا ہ راست ساشل میڈیا اور نجی ٹیلی ویژن پر نشریات شروع کر دیتے ہیں۔
اس وقت میرے ذہن میں ایک سوچ، ایک شدید، سنجیدہ اور گھمبیر شیطانی سوچ آتی ہے اور میں گھنے درختوں کے پیچھے چھپ جاتا ہوں۔ اپنے آپ کو چھپا لیتا ہوں۔ اپنے آپ کو اس بڑے حادثے میں لا پتہ ظاہر کرنا چا ہتا ہوں ۔ دنیا بھر کو ، اپنے لواحقین کو ، قریبی لواحقین کو ، اپنے دوستوں کو، سہلیوں کو، کاروباری رفقاء کو اور سب کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ میں اس المناک حادثے میں لا پتہ ہو گیا ہوں۔
میرے ذہن میں، اسی خواب میں یہ بھی خیال آیا کہ یہ سب لوگ اس بات کا یقین کر لیں گے کہ میں ، ارشد فاروق ہاشمی، ایک شخص اس حادثے میں لا پتہ ہو گیا۔ یہ بہت حد تک ممکن تھا، اس شخص کا جسم جل گیا، شناخت ممکن نہیں رہی، ڈی این اے تک تلاش نہیں ہو سکتا۔ مکمل لا پتہ ہو گیا، آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟
لاش نہیں ملی، وغیرہ وغیرہ اور میں آرام سے کہیں گھسک جاؤں، ، اس کے بعد کسی دربار پر جا کر داڑھی کی لمبائی بڑھا لوں ، یا سبز چوگا پہن لوں، سبز پگڑی باندہ لوں، نا معلوم ہو جاؤں، کوئی مرید ی، کوئی مجور یا پھر کوئی پیر بن جاؤں، اس جاہل معاشرے میں یہ سب آسانی کے ساتھ ممکن ہے۔ سب کچھ عین ممکن ہے ، کسی بھڑوےکو کچھ پتہ تک نہیں چلے گا! یہ عین ممکن تھا!
خواب ہی خواب میں یہ بھی خیال آیا کہ یہ سب لوگ بہت آسانی سے اس بات پر یقین کر لیں گے کہ میں کہیں مر گھپ گیا ہوں اور کچھ دیر بعد اصلی یا نقلی طریقے سے رو دھو کر ہفتہ دس دن میں مجھے بھول جائیں گے۔
کیا آجکل دنیا میں ایسا ہی نہیں ہوتا ؟
اب ان سب افراد کو ، جن کی ہر سالگرہ پر میں دو تین سو یورو خرچ کرتا رہا، کیک بنواتا رہا، ان کیکس پر ان کے نام لکھواتا رہا، قیمتی تحائف دیتا رہا، انواع و اقسام کے کھانے بنواتا رہا، عیش و طرب کی محفلیں سجاتا رہا، مشروبات کا اہتمام کرتا رہا، مہمانوں کو بلا کر تقریبات کا اہتمام کرتا رہا، ان سب کو اب میری سالگرہ منانے کی فکر نہیں ہو گی!!
————— ارشد فاروق ہاشمی ہیلسنکی ، فن لینڈ 23 نومبر 2024 ————–
Leave a Reply