تازہ ترین / Latest
  Friday, December 27th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ہاتھوں کی لکیریں احساس

Articles , Snippets , / Friday, October 25th, 2024

ناز پروین
”اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو“
گزرے دنوں میں مسرت نذیر کی گائی ہوئی یہ غزل جب بھی ٹی وی پر لگتی سب کام چھوڑ کر اسے سننے میں لگ جاتےبلکہ دیکھنے میں لگ جاتےکہ مسرت نذیر نے نہ صرف گائکی کا حق ادا کیا بلکہ قتیل شفائی کے لکھے اس خوبصورت کلام میں اپنی سریلی آواز سے جادو بھر دیا ساتھ میں مسرت نذیر کے منفرد ناز و انداز ۔۔۔کیا کہنے۔ہاتھوں کی لکیروں پر ہمیں بھی بڑا اعتماد تھا نو عمری میں تو بڑا شوق تھا جہاں موقع ملتا دست شناسی کے سٹال پرضرور قسمت آزمائی کرتے ۔۔ان لکیروں میں چھپے اپنے مستقبل کو ڈھونڈتے ۔جب باشعور ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ محض لکیریں ہیں غیب کا علم تو صرف اللہ کو ہے۔مزید باشعور ہوئے تو پتہ چلا کہ ان لکیروں پر اعتقاد کرنا گناہ ہے۔لیکن کیا کریں دونوں ہاتھوں کو جوڑ کرایک بڑا سا ب بننے کی امید کرتے کہ ہم سکھیوں میں یہ بات مشہور تھی کہ جس کا ب مکمل ہو اسے بہت خوبصورت ہم سفر ملے گا۔اب جب کہ ماشاءاللہ بچے بھی جوان ہو چکے ہیں تو کبھی کبھار دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر دیکھتے ہیں اور پھر اپنے اوپر ہنسنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔کیوں ۔۔لیکن چھوڑیں اس بات کو رہنے دیں۔۔۔۔دست شناسی باقاعدہ ایک علم ہے ۔جو علم نجوم کا ایک حصہ ہے۔
۔ ہاتھ بدنِ انسانی کا سب سے اہم عضو ہے،جس کے بارے میں مشہور ومعروف فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ’’ ہاتھ انسانی اعضاء کا بادشاہ ہے اور یہ تمام جسمانی قوتوں کا علمبردار ہے‘‘ ایک دوسرے مفکر کے بقول’’ مردکا حسن اس کے ہاتھوں میں ہے‘‘ خالقِ کائنات نے انسانی جسم کی تخلیق میں ہاتھ اور دماغ کا تعلق اس طرح قائم کیا ہے کہ ہاتھ دماغ کے نوکر ہیں۔انسان کو دیگر مخلوقات پر حاصل فوقیت اور بر تری جہاں علم و زبان، عقل و شعور،دانش ودانائی اور فہم و فراست کی صلاحیتیں ہیں وہیں یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ انسانی دماغ جو منصوبے سوچتا اور بنا تا ہے انہیں عملی جامہ اپنے ہاتھوں سے پہناتا ہے۔ انسانی خوابوں میں تعبیر کا رنگ اس کے ہاتھ بھرتے ہیں۔آج کی تمام تر جدید ترقیوں کا سہرا انسانی دماغ کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں تو ہاتھوں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ کمپیوٹر ہو یا موبائل ہر وقت دونوں ہاتھ اس میں مصروف رہتے ہیں چاہے کسی سے بات کرنی ہو لکھنا پڑھنا ہو شاپنگ کرنی ہو ۔۔۔۔۔بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ کسی پر لعنت بھیجنی ہو تو پورا ہاتھ اس کے سامنے کر دیتے تھےگویا یہ ایک معیوب اشارہ تھالیکن کیا کہنے بدلتے وقت کے ۔۔اب تو ٹیکسٹ میسج کرتے وقت ہاتھ اور اس کی انگلیوں کے درجنوں ایموجی موجود ہیں جو اچھا، برا، غلط، صحیح ،اوکے اور نہ جانے کن کن جذبات کو اظہار کا پیراہن دیتے ہیں۔۔۔کچھ دن پہلےفیس بک پر چین میں پاکستانی طلباء کی ایک بڑی دلچسپ پوسٹ دیکھی۔رات کا وقت تھا ہمارے یہ طلباء ایک چینی شہر میں سڑک پر مٹر گشتی کر رہے تھے۔۔ساتھ میں ویڈیو بھی بنا رہے تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں اب بھوک لگی ہے اور سٹور سے گروسری بھی کرنی ہے۔آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ ہم چین میں کیسے شاپنگ کرتے ہیں۔وہ ایک سٹور میں گئے ضرورت کی چند اشیاء اٹھائیں کاؤنٹر پر گئے سیل مین نے کمپیوٹر پر ان کی شاپنگ کی لسٹ بنا لی اور پھر ایک مشین ان کے آگے کر دی ۔ہم یہ سمجھے کہ وہ اس مشین پر موبائل سے یا کارڈ کے ذریعے پیمنٹ کریں گے لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک سٹوڈنٹ نے مشین کے اوپر فاصلے سے اپنا ہاتھ لہرایا۔۔ کوئی انگوٹھا نہیں دبایا نہ ہی مشین کے اوپر ہاتھ رکھ کر اپنے ہاتھ کے امپریشن دیے صرف مشین کے اوپر ہوا میں ہاتھ لہرایا اور ساتھ ہی مشین سے ان کی ادائیگی کا بل نکل آیا۔ان طلبہ نے بتایا کہ پورے چین میں اب اس طریقہ کار سے آپ اپنے بل کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔چاہے شاپنگ کرنی ہو پیٹرول ڈلوانا ہو گاڑی یا جہاز کا ٹکٹ خریدنا ہو ہر جگہ پر اب یہ طریقہ کار استعمال میں ہے اب نہ تو آپ کو اپنے پاس نقد رقم رکھنی پڑتی ہے نہ کریڈٹ کارڈ۔آپ کا ہاتھ ہی اب آپ کہ تمام بلز کی ادائیگی کر دے گا۔ہم جو شاپنگ کے بعد کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کر کے دل ہی دل میں بڑے خوش ہوتے ہیں کہ لو جی ہم بڑے جدید ہو چکے ہیں بڑے ماڈرن ہو چکے ہیں۔ہمارے لیے تو یہ ایک اچنبھا تھا۔صرف ایک بار آپ کے ہاتھ کو سکین کر کے سسٹم میں محفوظ کر لیا جاتا ہے جس کے ساتھ آپ کہ تمام کوائف منسلک ہو جاتے ہیں آپ کا پتہ آپ کا بینک اکاؤنٹ آپ کے ہاتھ کی لکیروں سے منسلک ہو جاتا ہے۔یہ ایک جدید ترین نظام ہے جس سے ملک میں موجود ہر شہری اور غیر ملکی کی تفصیل ایک ڈیٹا بینک میں محفوظ ہو جاتی ہے جس سے مجرموں کو پکڑنے بھی بے حد آسانی ہو گئی ہے مجرموں کی شناخت ان کے فنگر پرنٹس کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔ہمارے شاعر جہاں بے حد حساس طبیعت کے ہوتے ہیں وہی مستقبل شناس بھی ہوتے ہیں ۔اب قتیل شفائی مرحوم نے جو یہ شعر کہاکہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو ۔۔۔۔تو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی وفات کی چند دہائیوں کے بعد ہی ان کا یہ شعر حقیقت کا روپ ڈھال لے گا۔میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو ۔۔۔یہ محبوب سے زیادہ اب بینک اکاؤنٹ کی درخواست لگتی ہے ۔اب ہاتھوں کی لکیروں سے یہ تو معلوم نہیں کیا جا سکے گا کہ آپ کا محبوب آپ کو کتنا چاہتا ہے وہ کتنا من موہنا خوبصورت ہوگا۔۔۔ آپ کی زندگی میں کون کون سی خوشیاں اور حادثے آسکتے ہیں لیکن اب یہ لکیریں باوثوق طریقے سے آاپ کے بارے میں بتا سکیں گی کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔۔ یعنی آپ کے بینک اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں آپ کی مالی حیثیت کیا ہےآپ کے تمام کوائف یعنی تاریخ پیدائش سے لے کر رہائش کی جگہ آپ کی تعلیمی قابلیت سب کچھ اب ان لکیروں کے ذریعے پتہ کیا جا سکے گا ۔ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں رشتہ طے کرتے وقت لڑکے کی تصویر کی بجائے اس کے ہاتھ کے نقش منگوائے جائیں یا پھر لڑکے کو ہی دعوت دی جائے اور لڑکی والے ایسا ایک سکینر منگوا کر رکھیں۔۔ لڑکے سے کچھ بھی نہ پوچھا جائے صرف اس کے ہاتھ کا سکین لیں اور لو جی تمام تفصیل آپ کے سامنے ہوگی۔ دست شناسی جو ایک گناہ سمجھا جاتا تھا اب ایک حقیقت کا روپ ڈھال چکا ہے علم نجوم کے موجد شاید یہ نہ جانتے تھے کہ مستقبل میں ہاتھوں کی یہ لکیریں کتنی اہمیت اختیار کر جائیں گی۔ہاتھوں کی ان لکیروں میں ہی ہمارا تمام کچا چٹھا چھپا ہے ۔مستقبل میں ہماری زندگی کی ہر تفصیل ہمارے ہاتھوں کی ان لکیروں سے ہی منسلک ہوگی ۔شاپنگ کرنی ہو بل بھرنے ہوں دونوں ہاتھ خالی ہی لے کر جائیں گے۔کسی والٹ یا پرس کی ضرورت نہیں رہے گی بقول شاعر سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے ۔کہتے ہیں کہ سکندر اعظم نے اک روز اپنے ایک غلام کو اپنی چھڑی دے کر حکم دیا کہ وہ اس چھڑی کو میری سلطنت کے اس انسان کو دے جوسب سے بڑا بے وقوف ہو ۔وہ چھڑی لے کر پوری سلطنت میں گھومتا پھرا مگر اسے سب سے بڑا بے وقوف نہ مل سکا ۔اسی دوران اسے اطلاع ملی کہ سکندر بیمار ہے اور دوچار دن کا مہمان ہے ۔وہ واپس آیا کہ سکندر کی عیادت کرسکے ۔اس نے سکندر سے حال چال معلوم کیے ۔سکندر نے کہا:’’ اب تو ملک عدم کے سفر پر جانا ہے۔‘‘ غلام نے کہا :’’ حضور کب تک واپس آئیں گے ۔‘‘ سکندر نے کہا :’’ بے وقوف وہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔‘‘غلام بولا:’’ حضورتب تو آپ نے اس سفر کی سب تیاری کرلی ہوگی ،کھانے پینے کا سامان رکھ لیا ہوگا،فوج کو بھی تیاری کا حکم دے دیا ہوگا ۔‘‘ سکندر نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا :’’ وہاں ان میں سے کوئی چیز ساتھ نہیں جاتی‘‘ ۔غلام نے کہا :’’ حضور جو کچھ بھی ساتھ جاتا ہے وہ تو رکھ لیا ہوگا۔‘‘ سکندرنے کہا:’’ افسوس اسی بات کا ہے کہ وہاں جو کچھ کام آنے والا ہے وہ میرے پاس نہیں ہے ۔‘‘غلام نے چھڑی اٹھائی اور سکندر اعظم کو دیتے ہوئے کہا:’’ گستاخی معاف ! حضور مجھے آپ سے بڑا بے وقوف آج تک نہیں ملا ،یہ چھڑی آپ کو مبارک ہو۔‘‘
آپ کسی دین اور مذہب کے قائل ہوں یا نہ ہوں ،آپ آخرت کے عذاب و ثواب کو بھی مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوںلیکن آپ اپنے ماتھے کی آنکھوں سے آٹھوں پہر بچوں کا خالی ہاتھ پیدا ہونا اور لوگوں کا دنیا سے خالی ہاتھ جانا دیکھتے ہیں لیکن ہم تو اس دنیا میں ہی خالی ہاتھ پھریں گے۔
۔۔ہمارے چینی بھائی دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں ۔ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اس وقت دنیا میں سب سے اگے ہیں وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی اس ٹیکنالوجی سے شناور ہو جائیں گے ۔۔۔قتیل شفائی کا شعر اب مجسم صورت اختیار کر چکا ہے ۔اب مسرت نذیر کی اس غزل کو جھوم جھوم کر سنتے جائیں۔
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International