تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ہار جیت احساس

Articles , Snippets , / Tuesday, November 12th, 2024

ناز پروین
امریکہ کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔امریکی اپنی روشن خیالی ،جمہوریت پسندی پر نازاں ہیں۔دنیا بھر میں انسانی حقوق خاص کر خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ چار جولائی 1776 میں قائم ہونے والا یہ ملک ابھی تک اتنا روشن خیال نہیں ہوا کہ کسی خاتون کو ملک کا سربراہ منتخب کر سکے۔اگرچہ خواتین امریکی جمہوری نظام میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اہم عہدوں تک بھی پہنچ جاتی ہیں جیسے میڈیلن البرائٹ٫نینسی پلوسی ، ہلری کلنٹن اور دور حاضر کی کمالہ ہیرس۔ان کے علاوہ بھی خواتین کی بڑی تعداد امریکی جمہوری نظام میں اہم ذمہ داریوں پر فائز ہے ۔ اس کے برعکس ایشیائی ممالک کو خواتین کے حقوق کے معاملے میں خاصا تنگ نظر سمجھا جاتا ہے ۔ بلکہ امریکی انسانی حقوق کے ادارے ایشیائی ممالک کو اپنے ہدف پر رکھتے ہیں کہ یہاں پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ گرچہ یہ الزامات اتنے غیر حقیقی بھی نہیں۔لیکن حیرت کا مقام ہے کہ بے نظیر بھٹو اسلامی جمہوری ملک میں باقاعدہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ہمسایہ ملک بھارت میں اندرا گاندھی ، سری لنکا میں سیری ماوو بندرا نائیکے ، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد، بیگم خالدہ ضیا طویل عرصے تک ملک کے اعلی ترین عہدوں پر بطور صدر اور وزیراعظم فائز رہیں ۔کچھ سال پہلے نیپال کا دورہ کیا ۔جس کے دوران وہاں پر ان کی خاتون صدر ،متاثر کن شخصیت کی مالک،سادگی کا نمونہ بدیا دیوی بھنڈاری سے ملنے کا اتفاق ہوا جو 2015 سے 2023 تک نیپال کی صدارت کے عہدے پر فائز رہیں۔ اس کے برعکس امریکہ میں اب تک ایک بھی خاتون صدر کے عہدے پر منتخب نہیں ہو سکی ۔کیسی عجیب بات کہ تنگ نظر پسماندہ تیسری دنیا کے ممالک میں تو خواتین کی ایک لمبی فہرست ہے جو متعصب معاشرے ، نامساعد حالات کے باوجود اعلی ترین عہدوں پر جا پہنچیں ۔لیکن ایک روشن خیال معاشرے نے ایک بار پھر خاتون صدارتی امیدوار کو مسترد کر دیا ۔حالیہ امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت اور کمالہ کی شکست کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں ۔جن میں ایک جو بائیڈن کی آخری وقت تک ہٹ دھرمی کہ وہی الیکشن لڑیں گے ۔حالانکہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ضعیف العمری اور بیماری کے باعث ان کے مخالف تھے ۔آخری وقت میں جو بائیڈن نے صدارتی دوڑ سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ان کی نائب صدر کمالہ ہیرس کے پاس انتخابات کی تیاری کے لیے مناسب وقت بھی نہ بچا۔جس کا بھرپور فائدہ ٹرمپ نے اٹھایا کمالہ کی شکست پر تارکین وطن کی بڑی تعداد اور سیاہ فام کمیونٹی افسردہ ہے ۔بہرحال ٹرمپ کی جیت کے پیچھے اور بھی بہت سے عوامل تھے۔ٹرمپ کی جیت درحقیقت امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ہار ہے۔ جس نے ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ان سب باتوں سے قطع نظر الیکشن ہارنے کے بعد کمالہ کے خطاب نے سب کے دل جیت لیے ۔نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیا میں کمالہ ہیرس کے خطاب کو کروڑوں بار دیکھا اور سنا گیا۔کمالہ نے کہا کہ یہ جیت کسی پارٹی ،کسی فرد کی نہیں بلکہ امریکی قانون کی جیت ہے۔اس نے کہا ہماری جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ جب ہم الیکشن ہارتے ہیں تو اپنی شکست کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں اور یہی اصول ہمیں ملوکیت اور ڈکٹیٹرشپ سے جدا کرتا ہے۔ہم کسی ایک پارٹی یا شخص کے وفادار نہیں بلکہ امریکی قانون کے وفادار ہیں۔ہم پرامن اور قانونی طریقے سے اقتدار ٹرمپ حکومت کے حوالے کر دیں گے۔میں نے بھی کمالہ کا یہ خطاب بارہا سنا ۔ہمارے ہاں تو ایک اصول ہے ۔جیت گئے تو بلے بلے ہار گئے تو مخالفوں پر دھاندلی کے الزامات۔ کبھی چور ڈاکو کے القابات ۔کبھی فارم 45 ،47 کا رونا ۔ہماری سیاسی تاریخ میں کبھی بھی کسی سیاست دان نے ہارنے کے بعد یوں کھلے دل سے اپنی شکست کا اعتراف نہیں کیا۔ کبھی اپنے مخالف کو مبارکباد نہیں دی۔ہاں البتہ حالیہ انتخابات میں کے پی میں اس روایت نے جنم لیا ۔پشاور میں اے این پی کی تگڑی امیدوار ،مرحوم ہارون بلور کی بیوہ، فعال سیاستدان ،متاثر کن شخصیت کی مالک ثمر بلور پی ٹی آئی کے امیدوار مینا خان کے خلاف کھڑی ہوئیں۔عوامی رائے اور سروے بھی ثمر بلور کے حق میں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک خاتون ہونے کے باوجود ، اپنی زندگی کو لاحق خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے پشاور کے گلی کوچوں میں جا کر الیکشن کمپین لڑی۔ لگاتار کارنر میٹنگز سے خطاب کیا۔ عام عوام سے رابطے میں رہیں۔ اس کے باوجود وہ پی ٹی آئی کے مینا خان سے ہار گئیں۔وہ بھی چور ڈاکو دھاندلی کا الزام لگا سکتی تھیں۔ لیکن ثمر بلور نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی شکست قبول کی بلکہ اسی شام اپنے مخالف مینا خان کے گھر گئیں ۔انہیں پھولوں کا تحفہ پیش کیا اور جیت پر مبارکباد دی ۔یوں جمہوری تاریخ میں ایک مثال رقم کر دی ۔دیکھیں آنے والے دنوں میں کون اتنی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ قومی سطح پر عوامی سیاست دانوں کا ”میں نا مانوں ہار “کا عدم برداشت کا یہ رویہ ہمارے معاشرے میں نچلی سطح تک سرایت کر گیا ہے۔گزشتہ دنوں تعلیمی اداروں کے درمیان ملی نغموں اور قومی ترانے کے مقابلوں میں بطور منصف فرائض انجام دینے کا موقع ملا ۔بے حد دلچسپ تجربہ رہا۔ 35 ،40 سکولوں کے مابین مقابلہ تھا اور صرف تین پوزیشنز ۔پہلی، دوسری، تیسری ۔اب ان طلباء کو اور ان کے ساتھ آنے والے اساتذہ کو بھی معلوم تھا کے اتنے سکولوں میں سے صرف تین ہی کو اعزاز مل سکے گا۔مقابلے بھی کافی سخت رہے ۔منتظمین نے پہلے ہی سے طے شدہ معیار پر مشتمل کاغذ ہمارے حوالے کر دیے جس کے مطابق ہمیں نمبر دینے تھے۔طالبات کو پرفارم کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ہر ایک سکول دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تیاری کر کے آیا تھا۔لیکن نتائج کا اعلان ہوتے ہی جہاں جیتنے والے سکولوں کی طالبات اور اساتذہ نےخوشی کے نعرے بلند کیے وہیں پوزیشن نہ حاصل کرنے والے سکول کی طالبات بہت خفا نظر آئیں ۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھی ۔ہارنے والے ایک سکول کی معلمہ اپنی ہار سے اتنی دلبرداشتہ نظر آئیں۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے جذباتی انداز میں ہماری جانب بڑھیں۔ مجھے اور ساتھی جج کو کہا ”جو منصف غلط فیصلہ کرتے ہیں قیامت کے دن انہیں جہنم کی آگ میں پھینکا جائے گا“۔ان کے اس انداز بیاں ٫اس جذباتی پن پر جہاں میں حیران ہوئی وہیں میں عدم برداشت میں نہ مانوں ہار کے اس عوامی اظہار پر بہت محظوظ بھی ہوئی۔ کمالہ ہیرس کے الفاظ میرے دماغ میں گونجنے لگے ۔”میں اپنی شکست قبول کرتی ہوں یہ انتخابات قانون کی فتح ہیں“۔ان اساتذہ کے الزامات میں مجھے اپنے سیاست دانوں کی جھلک نظر آنے لگی۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International