rki.news
(جھوٹی انا کا شکار : خسارہ ہی خسارہ)۔(ڈاکٹر بننے کا خواب، خواب ہی رہا)۔ (مادرِ علمی ناز ہائی اسکول میں سائنس ٹیچر)}
مشاعرے، شاعری اپنی جگہ تھی۔ اسی کے ساتھ اپنے کالج میں بھی ہمارا شمار چند نمایاں طالب علموں میں بھی ہوتا تھا۔ بی ایس سی میں ذولوجی اور کیمسٹری ہمارے پسندیدہ مضامین تھے۔ اردو تو خیر گھر کی رانی تھی۔ 67-1966 میں سال اول اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں اسی سال سرِ فہرست رہے۔ ۔میگزین ایڈیٹر، بزمِ ادب کے سکریٹری، ٹیبل ٹینس ٹیم کے کیپٹن کے علاوہ سائنسی نمائش، تقریری مقابلے، مضمون نویسی میں کالج، یونیورسٹی اور ضلعی سطح پر متعدد انعامات حاصل کیے۔ یہ سب بتانے کی وجہ یوں پیش آئی کہ ہم اپنے آپ کو بہت اہم سمجھنے لگے تھے۔ شاید کالج کے لیے ہم ناگزیر تھے اپنی دانست میں۔ ایک روز کالج ایڈمنسٹریشن کی طرف سے نادر شاہی حکم موصول ہوا کہ فائنل ائر کا پہلا پیریڈ PT کا ہوا کرے گا جس میں شرکت لازمی ہوگی۔ ہم، اپنے ہم جماعت دوستوں کے کہنے پر پرنسپل کے پاس یہ عرض کرنے پہنچے کہ پی ٹی کسی اور پیریڈ میں رکھ دیں۔ ہمارا بی ایس سی فائنل ائر ہے۔ بہت سے طلباء بغیر ناشتہ کے آتے ہیں۔ کینٹین سے ناشتہ کرکے فوری پی ٹی بیمار کرسکتی ہے۔ ہمیں یہ زعم تھا کہ ہم کالج کے ایک “اہم طالب علم” ہیں۔ پرنسپل جناب وحیدالسعید قادری صاحب فورا” ہماری یہ “درست تجویز” پر آمنّا صدّقنا کہیں گے لیکن جناب نے سر ہلاکر انکار کردیا۔ ہم نے اصرار کیا تو فرمایا ” کالج میں رہنا ہے تو پہلا پیریڈ PT کا ہوگا ورنہ کالج سے چلے جاؤ۔۔۔ہمیں شدید دھچکا لگا۔ غم اور غصے کی حالت میں”Right Sir” کہہ کر ان کے کمرے سے نکل کر ایڈمن آفس پہنچے۔ کھڑے کھڑے ٹرانسفر سرٹیفکٹ بنوایا اور اپنی جھوٹی انا کے بت کو سنبھالے۔ دوستوں اور دیگر لوگوں کو حیرت زدہ چھوڑ ، کالج پر الوداعی نظریں ڈالتے چاردیواری سے نکل آئے۔
ابا کی پوسٹنگ سرگودھا ہوچکی تھی ویسے بھی اس زمانے میں “اباؤں” کی دلچسپی اسکول کالج میں داخلے، امتحان میں پاس فیل تک محدود ہوتی تھی۔ بڑے بھیا اپنی نئی نئی نوکری کے نشہ میں دوسرے شہر، منجھلے بھیا اور بڑی آپا اپنے مشاغل میں، رہیں بےچاری ایک اماں تو وہ فکر مند کہ “اب کیا ہوگا، کہاں پڑھے گا۔ ویسے بیٹا تونے دوسروں کے کہنے میں اپنا نقصان کیوں کیا، وہ خود جاتے پرنسپل کے پاس، اب تو تیر کمان سے نکل گیا” ۔۔ بات اماں کی درست تھی۔ ویسے تیر ایسا بھی کمان سے نہیں نکلا تھا۔ ہم اپنی انا کا شکار تھے، ورنہ دوسرے روز جاکر پرنسپل سے معافی مانگتے اور پی ٹی کلاس جوائن کرلیتے، آخر دوسروں نے بھی تو ہار مان لی ہوگی۔
چند روز بعد ہم نے 16, 17 میل دور سکہر ڈگری کالج میں داخلہ لے لیا۔ صبح بس میں ڈیڑھ دو گھنٹے سفر کے بعد کالج پہنچنا، تین بجے تک واپسی۔ پھر پرانے کالج کے پاس ٹیوشن پڑھانے سائکل پر جانا۔ شام ڈھلے گھر۔ میں اور میرا کمرہ اور شاعری۔ ساتھ ہی امتحان کی تیاری۔
1967-68میں بڑی آپا کی شادی کے ہنگام میں فائنل امتحان آگئے۔ اسی لیے پندرہ روز پہلے ہر مضمون کی خوب تیاری کرلی تھی لیکن کمسٹری کے پرچے میں اس تیاری کے باوجود ذہن ماؤف تھا، نقل کا بازار گرم تھا لیکن ہمیں نقل نہیں کرنی تھی۔ سادہ کاپی دے کر امتحان کے کمرے سے نکل آئے۔ (تفصیل قسط نمبر 16 میں ملاحظہ کیجیے)۔
قصہ مختصر ہماری تعلیم کا سلسلہ BSc Final سے منقطع ہوگیا:
“خسروؔ سے طے کرے کوئی کیسے معاملات
مارا ہوا خود آپ یہ خود سر انا کا ہے”
سال بھر بعد ابا کی پوسٹنگ واپس خیرپور ہوگئی۔ ڈانٹ ڈپٹ، شاعری بند کی کمزور سی دھمکی۔ اور پھر کاروبارِ زندگی۔
تقدیر کے بننے بگڑنے میں ہمارا اپنا بھی کچھ عمل دخل ہوتا ہے۔ ہم جھوٹی انا کا شکار نہ ہوتے تو اپنے پرانے کالج سے بی ایس سی کرکے میڈیکل میں داخلہ لے لیتے۔ ڈاکٹر بننے کا خواب پورا یوجاتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ابا کو ہم سے بڑی امیدیں تھیں تعلیم ادھوری رہ جانے پر سخت ناراض۔ بول چال تقریبا” بند ہوگئی تھی۔
ہم نے جس اسکول سے اپنے تعلیمی دور کا آغاز کیا تھا اسی میں برسوں بعد سائنس ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کرلی۔ اب یہ گورنمنٹ اسکول تھا۔ ناز ہائی اسکول۔ جس PT نہ کرنے کی ضد میں ہم سے یہ سب کچھ ہوا، مستقبل اسی کے ساتھ تقدیر نے جوڑ دیا۔ اسی اثنا میں سندھ گورنمنٹ نے ایک سرکلر نکالا کہ ضلع کے تمام ٹیچر Educational Gymnastic Diploma کے لیے نامزد ہوں گے۔ (لگتا تھا کہ تقدیر ہمیں سزا دے رہی ہے، لیکن ایسا نہیں تھا) ہم نے یہ امتحان بھی پاس کرلیا۔ پریکٹیکل تھرڈ ڈویژن اور تھیوری بورڈ میں تھرڈ پوزیشن کے ساتھ۔ اسی دوران کسی کے علم میں لائے بغیر BA کا امتحان بھی دے ڈالا۔ جس روز نتیجہ نکلا تو ابا اور باقی گھر والوں کو پتہ چلا۔ ہم نے سب بہن بھائیوں کی نسبت BA میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی تھی۔ ابا خوش ہوئے لیکن زیادہ اظہار نہیں کیا۔ گھر میں صرف سلام دعا یا پھر مشاعروں میں ملاقات ہوتی تھی۔
اللہ کس طرح مستقبل کی پلانگ کرتا ہے اگر بندے کی نیت درست ہو اس کا اندازہ ہمیں بعد میں ہوا: (جاری ہے)
” نئے رستوں پہ چلنے کی ہمیں پہچان کرتا ہ
Leave a Reply