rki.news
کالم نگار:
پارس کیانی
ساہیوال، پاکستان
انسان اپنی زندگی میں تجربات کے صدیوں پر پھیلے ہوئے ذخیرے کا وارث ہوتا ہے۔ لیکن یہ تجربات محض اُس وقت قیمتی بنتے ہیں جب نسلِ نو تک بصیرت اور درستگی کے ساتھ منتقل کیے جائیں۔ والدین ہوں، اساتذہ ہوں یا عمر و فہم میں بڑے افراد—یہ سب آنے والی نسلوں کے غیر اعلانیہ معلم ہوتے ہیں۔ ان کی زبان سے ادا ہونے والا ہر جملہ، ہر لفظ اور ہر اظہار محض ایک بات نہیں ہوتا، بلکہ وہ نئی نسل کی ذہنی اور اخلاقی تشکیل کا سنگِ بنیاد بن جاتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی گفتگو کے اثرات کو سرسری سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بچے اور نوجوان نہ لغت کے اوراق پلٹتے ہیں، نہ تحقیق کے ذخیرے تک پہنچتے ہیں، نہ ہی معلومات کی تصدیق کے لیے کتب خانوں کے چکر لگاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے پہلی کتاب اور سب سے اولین نصاب وہی ہے جو اُن کے کانوں میں اپنے بڑوں کی زبان سے اترتا ہے۔ اب اگر اس پہلی کتاب کے اوراق ہی الجھے ہوئے ہوں، اس کے جملے ہی مبالغے اور مغالطے سے بھرے ہوں تو سوچئے یہ نسل کس رخ پر آگے بڑھے گی؟
ہماری روزمرہ کی محفلوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے حضرات کسی واقعے کو رنگین بنا کر سناتے ہیں، افواہوں کو حقیقت کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں یا محض وقت گزاری کے لیے ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو درستی سے خالی ہوتی ہے۔ اُن کے لیے یہ ایک لمحاتی تفریح ہے، لیکن چھوٹے کانوں کے لیے یہ ایک مستقل حوالہ بن جاتا ہے۔ یہی بات بچے آگے چل کر سچائی کے طور پر دہراتے ہیں، اور جب کسی علمی یا سماجی نشست میں ٹوکے جاتے ہیں تو شرمندگی کے بوجھ تلے اُن کا اعتماد مجروح ہو جاتا ہے۔ اس لمحاتی غفلت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آنے والی نسل علم و تحقیق سے دور ہو کر جھجک اور کم اعتمادی کا شکار ہو جاتی ہے۔
ذمہ دار گفتگو دراصل تہذیب و تمدن کی بنیاد ہے۔ ایک استاد کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ شاگرد کی زندگی بدل سکتا ہے۔ والدین کا بے دھیانی میں کہا گیا ایک لفظ اولاد کی سوچ کا دھارا موڑ سکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سچ اور جھوٹ، تحقیق اور افواہ، مزاح اور حقیقت کی تمیز بچوں کے سامنے مٹتی جا رہی ہے۔ جب چھوٹے ذہنوں پر غیر ذمہ دارانہ باتوں کی چھاپ پڑ جاتی ہے تو وہی غلطیاں آگے چل کر اجتماعی زوال کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
یہ سوچنا ضروری ہے کہ بچوں کے سامنے زبان کبھی کھیل نہیں ہونی چاہیے۔ اُن کی معصوم فطرت میں جو کچھ اترتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اُن کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ غلط اعداد و شمار، تاریخی مغالطے، یا بے بنیاد لطائف—یہ سب اُن کے ذہنوں میں ایک کمزور عمارت تعمیر کرتے ہیں جو وقت آنے پر زمین بوس ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ صرف علمی میدان میں کمزور ثابت ہوتے ہیں بلکہ سماجی محفلوں میں بھی اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اولاد کی پرورش صرف اچھے اسکولوں میں داخلہ دلا دینے یا عمدہ کتابیں مہیا کرنے کا نام نہیں۔ اصل پرورش اُس زبان میں ہے جو ہم اُن کے سامنے بولتے ہیں۔ ہماری گفتگو ہی ان کے شعور کا پہلا چراغ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسل باوقار، مہذب اور علمی بصیرت رکھنے والی ہو تو ہمیں اپنی زبان کو بھی وقار، مہذب انداز اور فکری روشنی سے آراستہ کرنا ہوگا۔
سوال یہ نہیں کہ ہم نے کتنی باتیں کیں، سوال یہ ہے کہ ہم نے کتنی ذمہ داری سے بات کی۔ یہ نہ بھولئے کہ آپ کے لبوں سے ادا ہوا ہر لفظ کسی بچے کے ذہن میں بیج کی مانند پیوست ہو جاتا ہے اور کل کو ایک تناور درخت بن کر اُس کی شخصیت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا اپنی زبان کو محض اظہار کا ذریعہ نہ بنائیے بلکہ اُس کو تربیت کی امانت سمجھیے۔ اگر یہ شعور ہماری گفتگو کا حصہ بن جائے تو یقین جانیے ہماری نسلیں نہ صرف باشعور ہوں گی بلکہ باوقار بھی۔۔۔۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ زبان محض الفاظ کا سلسلہ نہیں، بلکہ نسلوں کی تقدیر کا تعین کرنے والی قوت ہے۔ جو کچھ ہم بچوں کے سامنے بولتے ہیں، وہی آنے والے وقت کی تہذیب اور کردار کی بنیاد بنتا ہے۔ لہٰذا زبان کو ذمہ داری کے ساتھ برتنے میں ہی ہماری فلاح اور قوم کی تعمیر پوشیدہ ہے۔
                                     
                                    
                                        
			
	
	
	                                    
                                    
Leave a Reply