rki.news
ہمارے بچپنے کی چاند راتیں
ہمارا ان سے بھی ناطہ بہت ہے
رفو کی اب نہیں ہے ہم کو حاجت
تن زخمی کو اک ٹانکا بہت ہے
وہ زمانے جن میں پیار محبت اور خلوص کی چاشنی تھی، ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتے، صداءیں دے دے کر بھی انھیں بلائیں، رو رو کر اشکوں کی جھیلیں بھی بنا دیں پھر بھی وہ زمانے نہ لوٹیں گے، وہ ماں، ساری دنیا سے بڑھ کر محبت کرنے والی ماں، باورچی خانے میں لکڑیوں کی آگ پہ چوکی پہ بیٹھ کے پوڑے، پکوان، پراٹھے اور مزے مزے کے کھانے پکانے والی دنیا کا سب سے بہترین ذایقہ اپنے ہاتھوں کی پوروں میں چھپا کر رکھنےوالی ماں، وہ ماں جو خلوص تھی، پیار تھی، اداے وفا تھی، بڑی با حیا تھی، وہ پانچ فٹ چھ انچ کی ہاییٹ کے ساتھ بڑی ہی سر بلند تھی،اس کے گھنگھریالے لہریے سیاہ کالے بال ساون کی گھنگور گھٹاوں جیسے تھے،وہ بات کرتی تو جیسے میٹھے میٹھے نغمے سناتی محسوس ہوتی، اور جب لوری دیتی تو یوں لگتا کانوں میں رس گھول رہی ہو، ہم نے لوگوں سے سنا کہ مایں بھی ڈانٹتی ہیں، ہمیں تو ہماری ماں نے کبھی نہ ڈانٹا دپٹا ہاں پند و نصایح کا باغیچہ سدا ہرا بھرا رکھا جس کی ہریالی سے ہم سب جی بھر کے مستفید ہوتے رہے، ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ہمارے گھر کسی بھی مہمان کے آنے پہ ناک بھوں چڑھای جاتی، ایسا بھی نہ تھا کہ مہمان ہمیں بتا کر ہماری اجازت سے آتے جیسا کہ قاعدے قوانین کے مطابق باقاعدہ اطلاع دینا اور میزبان کے اجازت نامے پہ مہمان بن کے قدم رنجہ فرمانا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ، جب جس کادل چاہتا وہ ہمارے گھر کی دہلیز پار کر آتا؛ اور ماں کے کھلے لنگر سے جی بھر کے فیض یاب ہوتا، ماں کے پاس جو سے بہترین کھانے پینے کی شے ہوتی لا کے دسترخوان پہ چن دیتی وہ کہتی تھی مہمان خداکی رحمت ہوتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے انتہائی سخت، غصیلے اور منظم ابا جی کو بھی مہمان نوازی میں اپنی ماں سے بڑھ کر ہی پایا، مہمانوں کا قیام دنوں سے ہفتوں اور ہفتوں سے مہینوں تک چلا جاتا پر مجال ہے جو امی ابا کے ماتھے پہ تیوریاں نظر آتیں یا مہمانوں کی میزبانی اور خدمت میں کوی کمی کوتاہی. وہ نجانے کون سے زمانے تھے اور اس زمانے کے لوگ کس مٹی کے بنے ہوے؟ اب توجی زمانے کے لوگ ہی نہیں زمانہ بھی بدل چکا ہے، لوگوں کو لوگوں سے نہیں اپنی اپنی پرائیویسی سے پیار ہے، مہمانوں کو باعث رحمت نہیں باعث زحمت سمجھا جاتا ہے، اب تو لوگ، لوگوں سے اتنے ڈرے ہوے ہیں کہ بہن بھای بھی ایک دوسرے سے کترانے لگے ہیں، منہ چھپانے لگے ہیں.
مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
قتیل شفائی
تو انسانوں کو پیدا تو درد دل کے لیے کیا گیا تھا مگر پڑ کسی اور کام میں گیے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں، ایک دوسرے کا بیڑا غرق میں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں، ایک دوسرے کا خون خرابہ کرنے میں، آپ یہ ہی دیکھ لیں کہ نیا گھر بنانے والا پرانے گھر سے اپنا گھر چند انچ یا چند فٹ اونچا ہی رکھتا ہے مقصد یہ دکھانا ہے کہ میں بہت نایاب ہستی ہوں، یہ میں کا کفر انسان کو شیطان بنانے کے تیر بہدف نسخے کے سوا سچ میں کچھ بھی نہیں ہے. ہم سب سانجھے تھے ہمارے دکھ اور سکھ اکٹھے جپھی ڈال کے ہنستے بھی تھے اور روتے بھی تھے، حسد اور جلن کی وبا سے بھی ہم پرے ہی تھے. بڑوں کا ادب احترام لازم تھا تو بچوں سے پیار بھی باب زیست کا ایک ضروری باب تھا، اس طرح کی دھینگا مشتی، تو تکار اور خاندانی محاذ آرائیاں ایسے نہ تھیں جیسے آج کل لوگوں نے وطیرہ ہی بنا لیا کہ بڑے چھوٹے کی نہ پہچان رہی اور نہ ہی تمیز، ہر کوی ہی بڑا بن بیٹھا اور اس ہر کسی کے بڑے بننے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ انسانی رشتوں کی قدریں ملیا میٹ ہوییں اور انسانی رشتوں کی جی بھر کے پامالی ہوی، بڑوں سے جب بڑے ہونے کا مان ہی چھین لیا گیا تو انھیں سواے موت کو صدا دینے کے کوی چارہ رہ نہ گیا، وہ زمانے بھی قصہ پارینہ ہوے جب بزرگوں کو گھر کے تالے کہا جاتا تھا اب تو بزرگ بھی بھوت پریت ہوے اور انھیں ڈرانے دھمکانے والے ناہجاز، بے ہدایتے،جہنمی.
مگر مجھے یہ لکھنے میں اور اس خوبصورت بات کا برملا اعتراف کرنے میں رتی برابر بھی عار نہیں کہ وہ ہمارے بچپنے کی چاند راتیں اور وہ صبح روشن کی ہریالی جو ہمارے والدین نے اخلاقیات کی بلندی پہ جا کے تربیت کے نام پہ ہمارے دل و دماغ میں انڈیلی وہی ہمارا سرمایہ حیات بن کے ہمارے لیے مشعل راہ بنی اور اسی کے نور سے ہماری زیست کو تمام کٹھنایوں سے نجات ملی.
ہمارے بچپنے کی چاند راتیں
ہمارے بچپنے کی چاند راتیں
ہمارا ان سے تو ناتا بہت ہے
نہیں حاجت بدن کو اب رفو کی
زخم سارے کو اک ٹانکا بہت ہے
ہمارے پیراہن کا رنگ گلابی
ہمیں یہ رنگ بھی بھاتا بہت ہے
لباس غم رہا ہے اپنا موسم
محبت میں ہوا گھاٹا بہت ہے
بہت ہی دوستی ہے غم سے پونم
کبھی جاتا کبھی آتا بہت ہے
وہ اپنے بچپنے کی چاند راتیں
ہمارا ان سے بھی ناطہ بہت ہے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureen1@icloud.com
Leave a Reply