از قلم عامرمُعانؔ
۔۔۔۔
ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چکی ہے اور مزید ترقی کی نوید سنائی جا رہی ہے ، لیکن یہ ترقی آپ کو سچ سے بھی بہت دور لے جا چکی ہے۔ سچ کہیں گم ہو گیا ہے اور جو سچ ہے بھی اس کو اس طرح تروڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے کہ نہ سچ سچ رہتا ہے اور نہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
سنتے ہیں پہلے زمانے میں بادشاہ سلامت نے ایسے لوگ رکھے ہوئے تھے جو لوگوں کو باور کرواتے تھے کہ بادشاہ کا ہر ظلم ہر ناانصافی دراصل عوام سے بے پناہ محبت کے باعث ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ بادشاہ ہٹا دیا یا مار دیا جاتا تھا تو وہی تمام لوگ دوسرے بادشاہ کی طرف سے پہلے بادشاہ کو برا بھلا کہنے لگ جاتے تھے اور عوام کو باور کرواتے تھے کہ اس بادشاہ کو عوام کا درد پہلے والے سے بھی زیادہ ہے یہ لوگ عوام کے مخلص نہیں بلکہ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے تھے۔
اب بعینہ وہی کردار سوشل سائٹس پر موجود لوگوں نے سنبھال لیا ہے جن کا کام جھوٹ سے پیسے کمانا ہے ۔ ان کے نزدیک سچ جھوٹ کچھ نہیں ہوتا جس سے ضروریات وابسطہ ہیں اس کے لئے اتنا جھوٹ بولو کہ عام آدمی کے لئے سچ سمجھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے۔
جیسے جیسے سوشل میڈیا ترقی کا بگل بجا رہا ہے ویسے ویسے جھوٹ کے سر پر رکھا تاج مزید نکھرتا جا رہا ہے اور سچ پھٹے پرانے کپڑوں میں کسی جیل میں بیٹھا رو رہا ہے کہ اب کسی کو سچ دیکھنے سمجھنے اور بولنے کی ضرورت نہیں۔
اخلاقیات کا اتنا جنازہ نکل چکا ہے کہ اس کو سمیٹنے کا ارادہ کرنے والوں کے ہاتھ اس کالک سے اتنے گندے ہو جاتے ہیں کہ یا تو وہ اس جھوٹ کا خود بھی حصہ بن جاتے ہیں یا پھر سچ کی طرح کسی کونے میں چپ چاپ چھپ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر نقاب اوڑھے لوگ یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی دنیا کے لوگوں سے وہ اسی طرح چھپے ہوئے ہیں جیسے سلیمانی ٹوپی پہن کر عمرو عیار چھپ جاتا تھا ، تو وہ جو مرضی کہیں ، لکھیں اور پھیلائیں ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ وہ اللہ کے عذاب کو بھی بھول چکے ہیں سو اللہ کا ڈر بھی اب انہیں جھوٹ بولنے سے نہیں روک سکتا ۔
انسانی جبلت ہے کہ جب جب اس پر سے سزا کا خوف ختم ہوا ہے وہ شیطان سے دو قدم آگے نکلنے کی سوچ لے کر میدان میں آیا ہے اور وہ ڈر ، ظلم اور جبر پھیلایا ہے کہ شیطان کانوں کو ہاتھ لگا کر سوچتا ہے کہ میں انسان کو اپنا استاد بنا لوں تو یہ مجھے گمراہی کے وہ گر بھی سکھا دے گا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔
اب آپ اندازہ لگائیں ایک خبر سامنے آتی ہے ابھی اس خبر کی تصدیق ہونا باقی ہوتی ہے ، کہ سوشل میڈیا پر نقاب میں چھپے لوگوں کی طرف سے یوں طوفان بدتمیزی برپا کر دیا جاتا ہے کہ وہ خبر اپنی تاثیر کھو بیٹھتی ہے ۔ اور اس خبر کی مخالفت کا اتنا پروپیگنڈا کر دیا جاتا ہے کہ آپ کو ایک ایسا گندہ تالاب نظر آنے لگتا ہے کہ آپ سوچتے ہیں کہ سچ کی تلاش کے لئے اگر اس تالاب میں اترے تو الٹا تالاب گندہ کرنے والے یہ شور مع آپ کی تصاویر کے پھیلا دیں گے کہ آپ جھوٹ کی صفائی کرنے کے بجائے اپنی صفائی دینے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ اور آخر آپ اپنی جان بچانے کے لئے اس جھوٹ کو ماننے پر مجبور ہو جائیں گے جس کو سچ بنا کر آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ اور اگر آپ نہایت ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اور بقول غالب کے
اتنے شیریں ہیں ترے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
کی عملی تصویر ہیں تو آپ اس جھوٹی دنیا کے عادی ہو کر انہی کی طرح دیگر لوگوں پر بنا دلیل بزور گالم گلوچ اپنے نظریات تھوپنے کی کوششیں شروع کر کے اس جھوٹی دنیا کا راج قائم کرنے میں حصے دار بن جائیں گے۔
یہ گوئبلز کے فرمودات پر کاربند لوگوں کا دور ہے کہ جھوٹ اتنا بولو اتنا بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے اور جب لوگ آپ کا جھوٹ سچ سمجھ کر قبول کرنے لگیں تو آپ ان لوگوں کے ساتھ خوب کھیلیں اور اپنی خواہشات کو ان کا سچ بنا کر انہی کو بیچ دیں اور مزے کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا جو فتنوں کا دور ہو گا ۔ دنیا میں سچ پہچاننا مشکل ہو چکا ہو گا اور ہر دو طرف کے لوگ ایک دوسرے کو جھوٹا کہہ رہے ہوں گے جبکہ دونوں جھوٹے ہوں گے تو اگر ایسا دور پاؤ تو دونوں سے کنارہ ہو کر الگ تھلگ ہو جانا اور صرف اس پر ایمان رکھنا جس کی سچائی کے بارے میں تمھیں اتنا یقین ہو جتنا اللہ پر ہے بس اسی میں تمھاری عافیت ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ آگے کا دور اور کتنے جھوٹ کیساتھ ہم پر مسلط ہونے آئے گا لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ کم از کم ہم میں اتنا تو حوصلہ ہو کہ ہم سچ کہنے کی جرآت کر سکیں۔ اور ہر دو طرف کے لوگوں کو کہہ سکیں کہ اپنا سچ اپنے پاس رکھو ہمیں آپ کا سچ نہیں چاہئیے ہمارے لئے سچ صرف وہ ہے جس پر ہمارا ایمان اتنا ہے جتنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے۔
Leave a Reply