عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس ملک کا عام شہری ہوں ، جی آپ نے درست اندازہ لگایا ، عام شہری مطلب اس ملک کے متوسط طبقے کا علم بردار ، جس کو بچپن سے غیرت کا علم پکڑا دیا جاتا ہے ، اور ساتھ کچھ بزرگوں کے اقوال و افعال بھی گھٹی میں ملا کر دے دیئے جاتے ہیں ۔ اب پتہ نہیں ان بزرگوں نے خود ان اقوال و افعال پر کتنا عمل کیا ، لیکن اپنے بعد آنے والوں کے لئے وہ اقوال و افعال ایک ایسی مشعل بن گئے ، جس کی روشنی میں ہر شخص ہر وقت وہ مشعل جلا کر ایک دوسرے کے اوپر گہری نظر رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو غیرت کے شکنجے میں جکڑے رکھتے ہیں ۔ عزت نفس کا یہ سبق پیدا ہوتے ہی گھٹی کے ساتھ دے کر اس کو پھر یہ سبق بھی سکھلایا جاتا ہے ، کہ جا بیٹے معاشرے میں بڑا آدمی بن کر اپنے گھر والوں کا خوب خیال رکھنا۔ اب پتہ نہیں بزرگوں کے زمانے میں عزت نفس کس کو کہتے تھے ، جبکہ ہمیں مطالعہ پاکستان میں تو یہ سبق پڑھایا جاتا تھا کہ انگریز مقامی لوگوں سے بہت ہتک آمیز سلوک کرتے تھے اس لئے الگ ملک کا قیام عمل میں لایا گیا ، تو پھر بزرگ عزت نفس شائد گھر میں رکھ کر جاتے تھے یا صرف بچوں کو گھٹی کے ساتھ ہی دے دیتے تھے ؟ ۔ ویسے ہماری نسل نے انگریز کا دور تو نہیں دیکھا ، لیکن کالے انگریز کا دور روز دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جب یہ کاربن کاپیاں ایسی ہیں تو اصل انگریز تو کیا ہی ہوں گے ۔ انگریز کے اصولوں پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرتی یہ کاربن کاپیاں ، کرسی پر بیٹھتے ہی خود کو اصل انگریز کے وارث سمجھنے لگتے ہیں ۔ اب پتہ نہیں ان کرسیوں میں ان انگریزوں کی روح بسی ہوئی ہے جو ان کو بیٹھتے ہی جکڑ لیتی ہے ، یا بچارے اس ذہنی پستی کا شکار ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اپنی نفسیاتی کمزوریاں دوسروں پر رعب ڈال کر ہی کم کی جاسکتی ہیں ۔ہاں تو بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ میں اس ملک کا عام شہری ہوں ، جس کو روز مرہ میں ان کاربن کاپیوں سے ہی مختلف طریقوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ صبح ہوتے ہی آپ گھر سے جیسے ہی نکلتے ہیں ، مختلف دفاتر میں آپ کا استقبال یہ کاربن کاپیاں ایسے کرتی ہیں ، جیسے وہاں سرکار نے ان کو دفاتر میں کام کرنے کے لئے نہیں بلکہ آپ کو بے عزت کرنے یا پھر رشوت کا بازار گرم کرنے کے لئے بٹھایا ہو ۔ ویسے کسی سیانے نے خوب ہی کہا ہے کہ ” پاکستان میں سرکاری ملازم ملازمت پر لگ جانے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتا ہے” ۔ اب آپ تصور کریں کہ آپ کا کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام آ گیا ہے ، دوسرے ممالک میں تو وہ اگلے دن دفتر میں جا کر کام کروا لیتے ہوں گے ، لیکن پاکستان میں کسی سرکاری دفتر میں کام اگر ہو تو دفتر میں جانے سے پہلے اپنے تمام دوستوں ، رشتے داروں اور واقف کاروں سے کچھ دن تو صرف اس بارے میں پوچھنے میں گزر جاتے ہیں کہ بھائی اس دفتر میں کام ہے ، کوئی واقف ہے آپ کا وہاں ؟ ۔ اب اگر شومئی قسمت کوئی واقف مل جائے تو آپ عام آدمی سے ایک قدم اوپر چلے جاتے ہیں ، لیکن زیادہ خوش نہ ہوں صرف ایک قدم آگے گئے ہیں ، بے عزتی کے لیول سے باہر نہیں نکلے ، اور جن حضرات کو کوئی واقف نہیں ملا وہ ابھی عام آدمی کی ہی فہرست میں ہیں ، سو وہ حضرات ابھی ڈرتے رہیں کہ دفتر میں کام کیسے کروانا ہے ۔ اب یہ حضرات پھر سب واقف کاروں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کبھی آپ نے بھی اپنا کوئی کام مذکورہ دفتر سے کروایا ہے ؟ کیا وہاں کام آرام سے ہو جاتا ہے ؟ اور سب واقف ان حضرات کو دیکھ دیکھ کر ہنستے ہیں کہ آرام سے کام اور پاکستانی دفاتر میں کیسے ہوتا ہے ؟؟ ، پھر کوئی قیمتی گر بتاتا ہے کہ وہاں کے کسی چپڑاسی سے رابطہ کریں جس کی جیب گرم کرنے سے کام میں خاطر خواہ آسانی ہو سکتی ہے ، کیونکہ اس چپڑاسی کا رابطہ اور واسطہ ان کاربن کاپیوں سے براہ راست ہے ، اب پھر یہ حضرات عام آدمی کی فہرست سے نکلنے لگے ہیں ، لیکن کیا یہ سب حضرات جیب گرم کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں ؟؟؟ اگر جواب نہیں ہے ، تو باقی حضرات کی شناخت اب بھی عام آدمی کی ہی ہے ۔ اب یہ عام آدمی کی فہرست میں رہ جانے والے افراد دفتر جانے کے لئے اگلے دن دیگر تمام کام سے چھٹی لے لیں ، کیونکہ اس دن کوئی دوسرا کام آپ نہیں کر سکتے ۔ اب ڈرتے ڈرتے دفتر جائیے جہاں یہ کاربن کاپیاں انتظار میں ہیں ۔چلیں تو آج دفتر میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں پہلی بار آئے افراد تو واقف ہی نہیں کہ جانا کہاں اور کس کے پاس ہے ؟ اور سارے دفتری بہت اہم کام میں مصروف ہیں ، وہ ان افراد پر دھیان کم اور اپنی سیاسی باتوں پر دھیان زیادہ رکھیں گے ۔ ان سے پوچھیں ، میں کہاں جاؤں ؟ اور وہ پنگ پونگ کی بال کی طرح کبھی ادھر بھجوائیں گے کبھی ادھر ، کبھی دائیں کبھی بائیں ، لیکن سیدھا راستہ بتا کر مطمئین نہیں کریں گے کہ سہولت ہو سکے ، کیونکہ اگر یہ افراد مطمئین ہو گئے تو ان کاربن کاپیوں کا دفتر سجانے کا مقصد فوت ہو جائے گا ، پھر کافی جھومتے جھامتے ، گھومتے گھومتے یہ افراد کسی ایسی کرسی پر پہنچ جائیں گے ، جس کا مقصد ان کی پریشانی سے زیادہ اپنی پریشانی دور کرنا ہوتا ہے ، وہ ان سے کام پوچھ کر ان کو ہی ڈانٹنے لگتا ہے کہ اس وقت آئے ہیں اب تو کھانے کا وقفہ ہونے والا ہے اور وہ یہ بات سننے کو تیار نہیں کہ یہ افراد تو بہت دیر سے دفتر کی بھول بھلیوں میں پنگ پونگ بنے ہوئے تھے ۔ کمال بے اعتنائی سے کہا جائے گا اب جائیے کھانے کا وقفہ ختم ہونے کے بعد آئیے گا ، اور واپسی پر فائل پر صرف اعتراض ہی لگوائیے گا کہ بہت ساری معلومات تو لائے ہی نہیں ، جو پہلے بتانا ضروری نہیں تھا۔ یہ اعتراض صرف اس لئے ہے کہ سفارش اور رشوت نہیں ہے وگرنہ کوئی اعتراض کے بنا کام ہو سکتا تھا ۔ اب دوبارہ واپس جائیے اور اعتراضات ختم کر کے آئیے. اور پھر کئی بار ایسے ہی چکر لگائیے کیونکہ ان دفاتر میں عام آدمی کو صرف غلام ہی سمجھا جاتا ہے جن کا کام صرف ان کاربن کاپیوں کے سامنے حاضری لگانا ہے ، اور ایک کام کے لئے کئی بار چکر لگانے کے بعد ان کا کام سفارش ، رشوت یا بے عزتی کے بعد ان پر احسان کر کر ہی کیا جاتا ہے ، کیونکہ ایک عام آدمی یہاں ان کاربن کاپیوں کا غلام ہے ۔
Leave a Reply