Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ہم اور خود کشی”

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, March 23rd, 2025

بڑے بھیا سے ہمیں والہانہ محبت یونہی نہیں تھی۔ ہم ان سے دس برس چھوٹے تھے۔ اماں بتایا کرتی تھیں کہ بڑے بھیا وقت بے وقت ہمیں گود میں لیے رہتے۔ ہم روتے تو اپنا انگوٹھا اتنا عرصے تک چُساتے رہتے کہ وہ شکل سے بد شکل ہوجاتا۔

بڑے بھیا کی ذرا سی بھی ڈانٹ ہمیں گوارا نہیں تھی۔ ساتویں کلاس میں پہنچے تو بھیا نے ہمارا شوق دیکھتے ہوئے خیرپور پبلک لائبریری کا ممبر بنوادیا۔ ممبر شب فیس اسوقت سات روپے تھی جو شاید بھیا نے اپنے ٹیوشن کے پیسوں سے ادا کی تھی۔

ایک روز بڑے بھیا نے ہمیں کسی بات پر خوب ڈانٹتے ہوئے کہا جاؤ مرو یہاں سے۔۔ بڑے بھیا کا یہ کہنا ہمارے دل پر چاقو کی طرح سے لگا۔ اس رنج و غم کے عالم میں گھر سے نکل گئے۔ پرانے محلے پہنچے۔ اس گھر کی چابی پڑوس میں ابا نے دی ہوئی تھی، شاہد گھر فروخت کی غرض سے ۔ گھر بالکل خالی تھا۔ چند ٹوٹی پھوٹی چیزیں، ایک جھلونگا پلنگ ،کاٹ کبھاڑ۔
بھیا کی ڈانٹ کا صدمہ کم نہیں ہوا تھا۔۔”جاؤ مرو” کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔ اسی عالم میں ہم نے پلنگ کی ادوائن (پائینتی کی طرف پلنگ کو کسنے والی رسی) کھولی۔ پلنگ پر چڑھ کر بمشکل چھت کے شہتیر میں لگے کنڈے میں پھندہ ڈالا۔ صحن کے ٹوٹے فرش کی اینٹیں لاکر تلے اوپر رکھیں۔ ہماری آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ اسی عالم میں اینٹوں پر کھڑے ہوکر رسی کا دوسرا سرا گلے میں کس لیا۔ آنکھیں بند کرکے بسم اللہ کہتے ہوۓ پیر مار کر اینٹیں گردیں۔ گردن میں رسی تنی، خوف سے ہماری چیخیں حلق ہی میں گُھٹ کر رہ گئیں ۔ اِدھر ادوائن کی بوسیدہ رسی ٹوٹی اور ایک زور دار آواز کے ساتھ ہی ہم نیچے بکھری ہوئی اینٹوں پر جاگرے۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پھر جلدی جلدی گردن سے ٹوٹی رسی کا دوسرا سرا نکالا جس کی گرہ پہلے ہی کُھل چکی تھی۔ سر اور کمر میں چوٹیں لگی تھیں۔ کچھ دیر تک یونہی پڑے ہوئے کبھی کنڈے میں جھولتی رسی کے ٹوٹ سرے کو دیکھتے تو کبھی گردن کو سہلاتے یہ سوچ رہے تھے کہ ہم نے مرنے کی کوشش کیسے کرلی۔ دوبارہ یہ تجربہ کرنے کے وسائل تھے نہ ہماری ہمت۔ اپنے آپ کو سمجھاتے رہے کہ اللہ میاں کو منظور نہیں تھا۔ سب گھر والے یاد آرہے تھے اب ہمارے آنسو بھیا کی ڈانٹ کی بجائے ان کی یاد میں بہہ رہے تھے۔ کپڑوں کی مٹی جھاڑ کر گھر سے باہر نکلے۔ تالہ لگا کر چابی پڑوس میں دی۔ واپس جانے کو دل تھا لیکن انا بھی کوئی چیز ہوتی ہے(آج بھی یہ کم بخت انا نے بہت تنگ کرتی ہے )۔ شام ہورہی تھی سو ہم نے گھر کی بجائے پبلک لائبریری کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر اخبار و رسائل کے لیے دروازے کے بالکل سامنے بچھی لمبی سی میز کے ایک سرے پر رکھی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس بات کا خیال رکھا کہ ہمارا رخ بالکل باہر والے دروازے کے سامنے ہو۔ ” رسالہ تعلیم و تربیت” ہمارے ہاتھوں میں تھا اور نظریں دروازے پر۔ اب آیا کوئی جب آیا۔ کاش بڑے بھیا ہی آجائیں وہ ہم سے بہت کرتے ہیں۔ ہم اسی سوچ میں تھے کہ لائبریری کے دروازے سے ابا داخل ہوتے نظر آئے۔ ہمارا سارا بدن سُن ہوگیا۔ اب ڈانٹ پڑے گی کیا خبر یہیں سے غصہ ہونے لگیں۔ ہم جلدی سے آگے بڑھ کر ابا سے لپٹ گئے۔ابا خاموش تھے ۔۔ہمارا ہاتھ پکڑے باہر آئے، سائکل پر بٹھا کر گھر لے آئے۔۔ گھر پہنچتے سب ہم سے لپٹ چمٹ کر رونے دھونے لگے۔ بڑے بھیا بھی ان میں شامل تھے۔ اماں بار بار منہ چوم رہی تھیں۔ ابا اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ بعد میں آپا (بڑی بہن) نے بتایا ہمارے گھر سے نکلنے کا علم بہت دیر سے ہوا تب اڑوس پڑوس میں پتہ کیا۔ پرانے گھر بھی گئے۔۔ شہتیر کے کنڈے میں پڑی ٹوٹی رسی وغیرہ دیکھ کر پٹّس پڑ گئی۔ ابا کو بھی پتہ چل گیا۔ بھیا کو خوب ڈانٹ پڑی۔ انہوں نے ہی بتایا کہ خسرو روز شام کو لائبریری جاتا ہے وہاں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ابا خود ڈھونڈنے نکل گئے انہیں اس سے پہلے اتنا پریشان نہیں دیکھا تھا۔ بھیا بھی کم پریشان نہ تھے۔ ڈانٹنے کا پچھتاوہ الگ۔ رات کے کھانے کے بعد ابا نے سب کو جمع کرکے بتایا کہ خود کشی کیوں حرام ہے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہماری یہ زندگی ہے اور یہ تو اللہ کی امانت ہے اس کو واپس لینے کا اختیار صرف اسی کا ہے۔۔ امانت میں خیانت بہت بڑا گناہ ہے۔

بھیا بعد میں ہمیں چپکے سے اپنے کمرے میں لے گئے۔ خوب پیار کیا۔ ٹافیاں بھی دیں۔ پھر کبھی بھیا نے ہمیں نہیں ڈانٹا۔
{کووڈ 19 نے جہاں بہت سی زندگیوں کے چراغ گل کیے وہیں2020 میں بڑے بھیا بھی اس موذی مرض میں مبتلا ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مرنے سے چند روز قبل میں انہیں دیکھنے گیا۔ سب کے منع کرنے کے باوجود بھیا کے بیڈ پر ان کے پاس لیٹ کر سر دباتا رہا۔ مجھے یہ ڈر بھی نہیں تھا کہ میں بھی اس جان لیوا وبا کا شکار ہوجاؤں گا۔ بھیا آکسیجن سلنڈر پر تھے، سانس کی آمد و رفت بحال رکھنے کے لیے۔ ایک دن بڑے بھیا کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ سچ کہا تھا ابا نے اس زندگی پر ہمارا اختیار نہیں یہ اللہ کی امانت ہے وہ جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔
إِنَّا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ(جاری ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International