rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو مختلف مذاہب، ثقافتوں اور قوموں کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں صدیوں سے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ اور جین مت کے پیروکاروں نے مل جل کر زندگی بسر کی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کی حالت میں تبدیلی آتی گئی اور بعض اقلیتیں مختلف ادوار میں تعصب، امتیاز اور تشدد کا نشانہ بھی بنتی رہیں۔ عیسائی برادری، جو کہ ہندوستان کی ایک قدیم اقلیت ہے، ان دنوں مختلف قسم کے سماجی، سیاسی اور مذہبی مسائل سے دوچار ہے۔
عیسائیت ہندوستان میں پہلی صدی عیسوی میں سینٹ تھامس کے ذریعے پہنچی تھی، جو حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے تھے۔ جنوبی ہند میں کیرالا کی سرزمین پر ان کی تبلیغ سے یہاں ایک مضبوط مسیحی آبادی وجود میں آئی جو آج تک وہاں موجود ہے۔ مگر باوجود اس تاریخی پس منظر کے، ہندوستان میں عیسائیوں کو کبھی مکمل قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ خاص طور پر بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات، جبری تبدیلی مذہب کے الزامات اور عبادت گاہوں پر حملے بڑھتے چلے گئے۔
2008 میں اڑیسہ کے ضلع کندھمال میں عیسائیوں پر ہونے والے پرتشدد حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کے لیے ہندوستان میں حالات کس قدر ناسازگار ہو سکتے ہیں۔ اس فساد میں درجنوں عیسائی قتل کیے گئے، سینکڑوں مکانات نذر آتش کیے گئے اور ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ کئی چرچ تباہ کر دیے گئے اور مذہب تبدیل نہ کرنے کی صورت میں سخت سزاؤں کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان حملوں میں بعض شدت پسند ہندو تنظیموں کا ہاتھ بتایا گیا جن کا مقصد عیسائی مشنری سرگرمیوں کو روکنا تھا۔
عیسائی مشنری ادارے جو کہ صدیوں سے تعلیم، صحت اور فلاحی شعبوں میں کام کرتے آ رہے ہیں، اُن پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ غربت کا فائدہ اٹھا کر نچلی ذاتوں کو عیسائیت کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ان الزامات کے تحت بعض ریاستوں میں جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین نافذ کیے گئے ہیں، جنہیں اکثر اوقات عیسائی پادریوں اور کارکنوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ان قوانین کی تشریح مبہم ہونے کے باعث اکثر بےگناہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی سے قبل ہی عوامی تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں۔
عیسائی اقلیت کو ایک اور بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ انہیں اکثر “غیر ملکی ایجنٹ” یا “مغربی طاقتوں کے نمائندے” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تاثر سیاسی اور مذہبی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد عوام میں ان کے خلاف بدظنی پیدا کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے عیسائیوں کو نہ صرف معاشرتی سطح پر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور جھوٹے الزامات بھی معمول بن چکے ہیں۔
عیسائی برادری میں دلت عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جنہیں ذات پات کے نظام میں پست ترین درجہ حاصل ہے۔ اگرچہ وہ مذہب تبدیل کر چکے ہیں، مگر انہیں ہندو معاشرتی ڈھانچے کے تحت اب بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں وہ ریزرویشن سہولیات بھی حاصل نہیں جو ہندو دلتوں کو دی جاتی ہیں۔ اس امتیازی پالیسی کی وجہ سے دلت عیسائی دوہری محرومی کا شکار ہیں: ایک طرف ذات پات کا سماجی استحصال، دوسری طرف ریاستی امداد سے محرومی۔
موجودہ بھارتی حکومت کے دور میں بھی عیسائی برادری کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔ مختلف ریاستوں سے چرچ جلائے جانے، پادریوں کو ہراساں کرنے اور عیسائی تقریبات میں رکاوٹ ڈالنے کی خبریں مسلسل سامنے آتی رہتی ہیں۔ بعض کیسز میں پولیس اور انتظامیہ کی خاموشی یا بعض اوقات جانبداری نے اقلیتوں کے تحفظ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مذہبی آزادی جسے بھارتی آئین میں بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے، اس کا عملی نفاذ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
عیسائی برادری نے کئی بار حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو روکا جائے اور مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جائے، مگر ان اپیلوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی حالت پر تشویش ظاہر کر چکی ہیں، خاص طور پر USCIRF (United States Commission on International Religious Freedom) اور ہیومن رائٹس واچ جیسے ادارے بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی عدم برداشت کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے باوجود عیسائی برادری نے اپنے فلاحی کردار کو ترک نہیں کیا۔ ان کے اسکول، اسپتال اور رفاہی ادارے اب بھی نہ صرف عیسائیوں بلکہ تمام شہریوں کے لیے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی یہ قربانی اور لگن اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہندوستان کی خدمت اور ترقی میں بھرپور حصہ دار ہیں۔
عیسائیوں کی حالت زار دراصل ایک بڑے مسئلے کا عکس ہے، اور وہ ہے ہندوستان میں اقلیتوں کے تحفظ کا بحران۔ جب تک مذہبی رواداری، قانون کی بالا دستی، اور انسانی حقوق کے احترام کو سنجیدگی سے نافذ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک نہ صرف عیسائی بلکہ دیگر اقلیتیں بھی عدم تحفظ کا شکار رہیں گی۔ ہندوستانی معاشرے کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اپنے آئینی وعدوں اور جمہوری اصولوں پر قائم رہنا چاہتا ہے یا اکثریتی بالادستی کے خطرناک راستے پر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1. United States Commission on International Religious Freedom, 2023 Annual Report.
2. Human Rights Watch, “India: Minorities under Threat”, 2022.
3. Sarkar, Tanika. Violent Conjunctures in Democratic India. Orient BlackSwan, 2015.
4. Chatterji, Angana P. Violent Gods: Hindu Nationalism in India’s Present. Three Essays Collective, 2009.
5. Government of India, Census 2011, Religious Composition of Population.
6. National Campaign on Dalit Human Rights, Report on Dalit Christians and Constitutional Discrimination, 2021
Leave a Reply