عبدالصّمد بھلر
انسان اپنی روز مرہ زندگی میں مختلف جذبات سے گزرتا ہے اور یہ مختلف جذبات کی ہی بدولت ہم زندہ ہیں کیوں کہ ہر وقت ایک سی کیفیت میں رہنے سے طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے اور انسان تھک بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہر وقت ہنسنے سے انسان بے لطف سا محسوس کرتا ہے۔ اور اگر ہر وقت روتا ہی رہے تو بھی طبیعت میں ہلکا پن سا آجاتا ہے۔ ان تمام جذبات کا امتزاج ہی ہماری زندگی کو دھکا دیے ہوئے ہے۔ ہم ہنستے ہیں ‘ روتے ہیں ‘ ڈرتے ہیں ‘ اداس بھی ہوتے ہیں اور کچھ چیزوں اور انسانوں سے نفرت بھی کرتے ہیں ۔ہنسنا اور مسکرانا اکثر مثبت جذبات کا اظہار ہوتے ہیں ۔ معروف ماہر نفسیات فرائڈ ہنسنے کو غموں اور مشکلات سے راہ فرار قرار دیتے ہیں ۔ انکے مطابق :
Humor Provides an escape from psychological strain .
خیر مگرکیا آپ نے سوچا کہ ہںسننے کے بھی متعدد درجے ہیں۔ ہم اکثر ان کیفیات کے لئے ایک ہی لفظ ” ہنسنا” استعمال میں لاتے ہیں۔ ہنسی کا پہلا درجہ مسکراہٹ ہے ۔ یعنی ہونٹوں میں دبی ہوئی خفیف سی مسرت۔ جیسا کہ جناب اصغر گونڈوی نے کہا ہے :
~ یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
ہنسی کا دوسرا درجہ ہے خندۀ زیر لب۔ یہ لفظ فارسی سے اخذ شدہ ہے۔ اس سے مراد ہے لبوں پر مسکراہٹ کی ہلکی سی لہر۔
ایک شعراس پر بھی سن لیجیے۔
~ بزم عزائے دوست میں غم نہ سہی طرب سہی
ہنس نہ سکو جو کھل کے تم تو خندۀ زیر لب سہی
ہنسی کے تیسرے درجے کو زہر خند کہا جاتا ہے۔ شرمندگی ‘ غصے اور رنج و مصیبت میں ہنسنے کو زہر خند کہتے ہیں۔ جناب شاعر لکھنوی کا کیا خوب اظہار ہے ۔ ملاخطہ ہو۔
~ صرف آنسوں جواب غم دوراں تو نہیں
اک تبسم سے بھی یہ فرض ادا ہوتا ہے
ہنسی کا چوتھا درجہ ‘ قہقہہ” ہوتا ہے۔ قہقہہ دیر تک نہیں لگایا جاسکتا۔ اگر ایسا ہو تو محفل میں بوریت اور طبیعت پر افسردگی چھا جاتی ہے۔ بقول جناب یگانہ چنگیزی:
~ گناہ زندہ دلی کہییے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا
Leave a Reply