Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ہوسِ مرد کے جواز کی اخلاقی شکست

Articles , Snippets , / Wednesday, December 31st, 2025

rki.news

“ہوس کے جواز کی اخلاقی شکست” دراصل اُس فکری زوال کا نام ہے جس میں مرد اپنی نگاہ کی لغزش، اپنے خیال کی آلودگی اور اپنے رویّے کی درشتی کا الزام عورت کے وجود پر ڈال دیتا ہے۔ یہ سوچ بظاہر سماجی اقدار کے تحفظ کے نام پر پیش کی جاتی ہے، مگر حقیقت میں یہ اپنی اندرونی کمزوریوں سے فرار کی ایک صورت ہے۔ جب مرد یہ کہتا ہے کہ عورت کے لباس یا بناؤ سنگھار نے اسے بہکایا، تو وہ دراصل یہ تسلیم کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے سے قاصر ہے۔ ایک بالغ، باشعور انسان کے لیے یہ اعتراف کسی فخر کا نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہوس اور تشدد ہمیشہ کسی نہ کسی جواز کی تلاش میں رہے ہیں وہ کبھی عورت کا لباس، کبھی اس کی آواز، کبھی اس کا ہنسنا، اور کبھی محض اس کی موجودگی کو بطور جواز پیش کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ منطق درست مان لی جائے تو پھر اخلاق، قانون اور تربیت سب بے معنی ہو جاتے ہیں، کیونکہ ہر برائی کے لیے کوئی نہ کوئی بیرونی بہانہ تراش لیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ برائی کا سرچشمہ باہر نہیں، انسان کے اندر ہے۔ وہ حیوانی جبلّت جو ضبط، شعور اور اخلاقی تربیت کے بغیر آزاد ہو جائے، تو وہ خود اپنے لیے دلیلیں گھڑ لیتی ہے۔
اسلام اس مسئلے کو نہایت متوازن اور عادلانہ انداز میں دیکھتا ہے۔ قرآنِ مجید میں سب سے پہلے مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ترتیب عین حقیقی ہے اور جبلتِ انسانی سے متصادم بھی نہیں، بلکہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ فتنہ پہلے نظر سے جنم لیتا ہے اور نظر پر پہلا اختیار مرد کے پاس ہوتا ہے۔ اسلام مرد کو یہ سہولت نہیں دیتا کہ وہ عورت کے لباس کو دیکھ کر اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہو جائے۔ بلکہ اسے یہ شعور دیتا ہے کہ اس کی نظر، اس کا خیال اور اس کا عمل سب اس کے اپنے دائرۂ اختیار میں ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں ضبطِ نفس کو اعلیٰ اخلاقی مرتبہ دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے طاقتور اسے نہیں کہا جو دوسرے کو گرا دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے اور خواہش کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ یہ اصول واضح کرتا ہے کہ مردانگی یا قوت کا معیار ہوس کی پیروی نہیں بلکہ اس پر قابو پانا ہے۔ عورت کا سجنا سنورنا اگر آزمائش ہے تو مرد کا ضبط اس آزمائش کا جواب ہے۔ آزمائش کا وجود امتحان لینے والے کی حکمت ہے، نہ کہ گناہ کا جواز۔۔۔۔
مزید یہ کہ اسلام عورت کو محض “فتنہ” بنا کر پیش نہیں کرتا بلکہ اسے ایک مکمل، باعزت انسان مانتا ہے جس کی عزت، نیت اور اختیار کا احترام لازم ہے۔ عورت کی موجودگی کو مرد کی کمزوری کا سبب ٹھہرانا دراصل عورت کی انسانیت کی نفی اور مرد کی اخلاقی ذمہ داری سے انکار ہے۔ یہی سوچ معاشروں میں عدمِ تحفظ، الزام تراشی اور صنفی ناانصافی کو جنم دیتی ہے سماجی سطح پر اس طرزِ فکر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مرد اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر عورت خود کو بدل لے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، حالانکہ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ عورت کو مکمل طور پر غائب کر دینے کے باوجود بھی انسانی ہوس ختم نہیں ہوئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ عورت نہیں، بلکہ وہ ذہن ہے جو عورت کو ایک شے اور خود کو ایک بے اختیار مخلوق سمجھتا ہے اخلاق کا اصل امتحان وہاں ہوتا ہے جہاں خواہش موجود ہو، نہ کہ وہاں جہاں کوئی کشش ہی نہ ہو۔ اسلامی تعلیمات مرد کو آئینہ دکھاتی ہیں: اپنی نگاہ کی اصلاح کرو، اپنے نفس کی تربیت کرو، اور اپنی لغزش کا ذمہ دار خود کو ٹھہراؤ۔ جب تک مرد یہ ذمہ داری قبول نہیں کرے گا، تب تک نہ عورت محفوظ ہو سکتی ہے اور نہ معاشرہ مہذب کہلا سکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

© 2025
Rahbar International